RSS Feed

فہرست براۓ موسمیاتی تبدیلی: اہم اصطلاحات کا ترجمہ اور وضاحت

Climate change glossary (in Urdu): the terms you need to understand, explained

To help demystify and open up conversations on climate change, The Third Pole has compiled this glossary of key terms, available in five languages – English, Urdu, Hindi, Bengali and Nepali.

This is the Urdu Glossary. It is a live document, which means it will be updated periodically.

موسمیاتی تبدیلی کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے اور اس حوالے سے گفتگو کو فروغ دینے کے لئے دی تھرڈ پول نے بنیادی اصطلاحات پر مبنی فہرست مرتب کی ہے، جو پانچ زبانوں میں دستیاب ہے۔ یہ اردو زبان میں موسمیاتی تبدیلی کی اصطلاحات کی ایک منفرد فہرست ہے۔

تصویر: وپن اسکیچپلور / دی تھرڈ پول

شالینی کماری, فرح ناز زاہدی

ستمبر 1, 2023

 موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں دنیا کا درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے، اور لاکھوں زندگیوں اور ذریعہ معاش کو خطرہ لاحق ہے، ایسے میں بدلتی ہوئی آب و ہوا اور اس کے نتائج کے بارے میں واضح کمیونیکشن بہت زیادہ ضروری ہے۔ لیکن اکثروبیشتر، موسمیاتی  تبدیلی سے متعلق بحث مباحثے میں بھاری لفظیات اور تکنیکی اصطلاحات کا استعمال کیا جاتا ہے، نتیجتاً اس اہم تغیراتی موضوع پر گفتگو میں وسیع تر پیمانے پر عوام کی شمولیت رہ جاتی ہے

تاہم، درستگی اور سائنسی جامعیت  کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عوام کے لئے، موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اہم نکات کی واضح تفہیم یہ سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے ماحول کے ساتھ کیا ہو رہا ہے- اس بارے میں تنقیدی انداز میں سوچنا بھی اہم ہے کہ حکومتوں اور جن کے وسیع مفادات ہیں ان کے پاس اس کا کیا جواب ہے۔ دی تھرڈ پول نے موسمی تبدیلی سے متعلق گفتگو کے لئے اہم اصطلاحات پر مبنی ایک رہنما فہرست مرتب کی ہے۔ یہ اردو زبان میں شائع ہونے والا ایک اہم دستاویز ہے، اور اردو زبان میں موسمیاتی تبدیلی کی اصطلاحات کی ایک منفرد فہرست ہے۔  ہم امید کرتے ہیں کہ اس سے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق تفہیم کو وسعت ملے گی اور ان آوازوں کی اس بحث میں شامل ہونے میں مدد ملے گی جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔

یہ گائیڈ انگریزی، ہندی، نیپالی، اردو اور بنگالی میں دستیاب ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں پر بات چیت میں نئی اصطلاحات شامل ہونے پر اسے باقاعدگی سے اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔

123

1.5C اور 2C

انسانی کارروائیوں کے نتیجے میں موسمی تبدیلی کی بدولت، 2022 میں، اوسط عالمی درجہ حرارت صنعتی انقلاب سے پہلے کے مقابلے میں 1.15 ڈگری سیلسیس زیادہ تھا۔ جیسے جیسے درجہ حرارت اس سطح سے بڑھتا ہے، متواتر اور شدید گرمی کی لہروں، سیلابوں اور خشک سالی، بارش کے انداز میں خلل اور سمندر کی سطح میں اضافے سمیت دیگر اثرات سے، لوگوں، جنگلی حیات اور قدرتی نظاموں کو لاحق خطرات بڑھتے جاتے ہیں۔

اس طرح کی صورتحال کی روک تھام کے لئے، دنیا کی حکومتوں نے 2015 میں گلوبل وارمنگ کو 2C سے نیچے رکھنے، اور پیرس معاہدے پر دستخط کے ساتھ، گرمی کو 1.5C تک محدود کرنے کے لئے ‘کوششیں جاری رکھنے’ کا عہد کیا۔ 2C درجہ حرارت کے نتیجے میں دنیا کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کہیں زیادہ نقصان دہ، ناقابل واپسی اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا، اور ہم بہت سے خطرناک موسمی ٹپنگ پوائنٹس سے گزریں گے۔

 انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج (آئی پی سی سی-IPCC) کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر گرمی کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کے اندر رکھنا ہے تو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو 2025 تک عروج پر پہنچنا ہوگا، اور 2030 تک اسے 43 فیصد تک کم کرنا ہوگا۔

وعدوں کے باوجود، دنیا اس ہدف کے حصول کے ٹریک پر نہیں ہے۔ مارچ 2023 میں جاری آئی پی سی سی کی رپورٹ کے مطابق، گرین ہاؤس گیسوں کے کم اخراج کے باوجود، اس صدی میں گرمی 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کرنے کا امکان ہے۔

ا

انسانی بشریات – انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیش آنے والے نتائج

Anthropogenic

انسانی بشریات سے مراد انسانی سرگرمیوں  کی وجہ ہونے والی کوئی چیز۔  تاریخی طور پر، زمین کی آب و ہوا ہزاروں سالوں میں بتدریج تبدیل ہوئی ہے۔ لیکن 1800صدی سے، انسانی سرگرمیوں جیسے معدنی ایندھن کو جلانے اور جنگلات کاٹنے سے ماحول میں گیسوں کا توازن تبدیل ہوا، جس سے عالمی درجہ حرارت میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ یہ آب و ہوا میں تبدیلی کی انسانی وجوہات کی مثالیں ہیں۔

ال نینو 

El Niño

ال نینو آب و ہوا کا ایک پیٹرن ہے جس میں مشرقی وسطی استوائی بحرالکاہل کی سطح کا پانی اوسط سے کافی زیادہ حد تک گرم ہوجاتا ہے۔ یہ دنیا بھر میں بارش کے پیٹرن اور موسم کو متاثر کرتا ہے، اس مدت کے دوران عالمی سطح پر درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ال نینو ایک رجحان کا حصہ ہے جسے ال نینو-سدرن آسیلیشن (ای این ایس او – ENSO)  کہا جاتا ہے۔ اس کے متضاد ٹھنڈے مرحلے کو لا نینا کہا جاتا ہے۔

اخراج

Emissions

اخراج، ایسی گیسوں اور دیگر مادوں کو کہتے ہیں جو انسانی سرگرمیوں جیسے مینوفیکچرنگ، توانائی کی پیداوار اور نقل و حمل کے نتیجے میں فضا میں خارج ہوتے ہیں۔ 1800 کی دہائی سے گرین ہاؤس گیسوں جیسے میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج گلوبل وارمنگ کا باعث بنا ہے۔

انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج (آئی پی سی سی)

Intergovernmental Panel on Climate Change (IPCC)

انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج، یا آئی پی سی سی(IPCC)، ایک سائنسی ادارہ ہے جسے 1988 میں ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن (ڈبلیو ایم او- WMO) اور یونائیٹڈ نیشنز انوائرنمنٹ پروگرام نے(UNEP) بنایا تھا۔ اس کا مقصد حکومتوں کو جدید ترین موسمیاتی سائنس کے بارے میں آگاہ کرنا اور یہ بتانا ہے کہ آنے والی دہائیوں میں موسمیاتی تبدیلی کے دنیا پر کیا ممکنہ اثرات مرتب ہوں گے۔

فی الحال، آئی پی سی سی کے 195 رکن ممالک ہیں۔ آئی پی سی سی دنیا بھر سے سائنسدانوں کو اکٹھا کرتا ہے جو رضاکارانہ طور پر اس کے کام میں حصہ لیتے ہیں۔ آئی پی سی سی اصل تحقیق پیش نہیں کرتا۔ اس کے بجائے، سینکڑوں سائنس دان دستیاب سائنسی لٹریچر کا جائزہ لیتے ہیں اور اسے جامع تشخیصی رپورٹس میں تشکیل دیتے ہیں۔ یہ رپورٹس اس بات پر روشنی ڈالتی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اسباب کیا ہیں، زمین پر اس کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں، اور کس طرح تخفیف (موسمیاتی تبدیلی کو محدود کرنا) اور موافقت لوگوں کو بدترین اثرات سے بچانے میں مدد کر سکتی ہے۔

آئی پی سی سی کے بارے میں مزید جاننے کے لئے، ہماری وضاحت پڑھیں۔

اوزون کی تہہ

The ozone layer

اوزون ایک گیس کا مالیکیول ہے جو آکسیجن کے تین ایٹموں سے بنا ہے۔ اوزون کی تہہ زمین کے اسٹراٹاسفیئر کا ایک حصہ ہے، جہاں  فضا کا 90 فیصد اوزون پایا جاتا ہے۔ اوزون کی یہ تہہ زمین پر زندگی کے لئے اہم ہے کیونکہ یہ سورج کی کچھ نقصان دہ الٹرا وائلٹ شعاعوں کو جذب کرتی ہے۔

1970 کی دہائی میں ہونے والی تحقیق سے پتا چلا کہ اوزون کی تہہ ختم ہو رہی ہے، جس سے زمین پر زندگی کے لئے ممکنہ طور پر سنگین خطرات لاحق ہیں۔ اوزون کی تہہ کی کمی کے لئے ذمہ دار گیسیں، بشمول سی ایف سی (CFCs) اور ایچ سی ایف سی (HCFCs)، کو عالمی ماحولیاتی معاہدے مونٹریال پروٹوکول کے تحت مرحلہ وار ختم کیا جا رہا ہے۔ ان کیمیکلز کے استعمال کو محدود کرنے میں اس معاہدے کی کامیابی کی وجہ سے اوزون کی تہہ اب بحالی کے راستے پر ہے۔

اربن ہیٹ آئی لینڈ افیکٹ

Urban Heat Island Effect

اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ سے مراد ایک ایسا رجحان ہے جس میں شہری علاقوں میں درجہ حرارت آس پاس کے علاقے کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ہوتا ہے۔ وجوہات میں مصنوعی سطحیں جیسے کنکریٹ اور سڑکیں جو گرمی جذب کرتی ہیں، ایندھن جلانے اور دیگر انسانی سرگرمیوں کے دوران پیدا ہونے والی گرمی؛ اور پودوں کی عدم موجودگی شامل ہیں۔ اربن ہیٹ آئی لینڈ افیکٹ شہری علاقوں میں گرمی کی لہروں کی شدت کو بڑھا سکتا ہے۔

ب

بائیو انرجی اور بائیوفیول 

Bioenergy and biofuels

بائیوایندھن مائع، ٹھوس یا گیسی ایندھن ہیں جو پودوں کے مواد اور جانوروں کے فضلے سے تیار ہوتے ہیں۔ گنے، مکئی اور سویابین ان بڑے ذرائع میں سے ہیں جو فی الحال بائیوایندھن پیدا کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ مندرجہ بالا ایندھن کی اقسام کے ساتھ یا بایوماس کو براہ راست جلانے سے پیدا ہونے والی توانائی کو با ئیو انرجی کہتے ہیں۔

بائیو ایندھن کی وکالت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بائیو ایندھن جیسے بائیو ایتھانول اور بائیو ڈیزل معدنی ایندھن کا کم کاربن متبادل پیش کرتے ہیں اور ٹرانسپورٹ سیکٹر کو ڈیکاربنائز کرنے میں مدد کرسکتے ہیں۔ بائیو ایندھن کی کل عالمی طلب 2022 اور 2027 کے درمیان 22 فیصد بڑھ جائیگی۔ تاہم، ماہرین نے بائیو فیول کے لئے  زمین وقف کرنے کے اثرات کے حوالے سے خبردار کیا ہے، جو بصورت دیگر خوراک کی پیداوار اور حیاتیاتی تنوع کو سپورٹ کرنے کے لئے کارآمد ہوسکتی ہے۔ ناقدین کا استدلال ہے کہ بائیو ایندھن کو جلانا دراصل کم کاربن والی توانائی پیدا کرنے کا طریقہ نہیں ہے، اور وہ اعداد و شمار جو فوسل فیول کے مقابلے میں بائیو ایندھن میں کم کاربن فوٹ پرنٹ دکھاتے  ہیں وہ تمام کاربن اخراج کا حساب نہیں رکھتے۔

بھارت کے شہر نئی دہلی کے اوپر سے ایک طیارہ پرواز کر رہا ہے۔ ایئر لائن کمپنیوں نے حالیہ برسوں میں کاربن کریڈٹ پر بھاری رقم خرچ کی ہے
تاکہ سیارے کو گرم کرنے والی گیسوں کے اخراج کو ‘کم’ کیا جا سکے۔ (تصویر: ڈیوڈووچ میخائل /الامی)

بائیوانرجی ود کاربن کیپچر اینڈ اسٹوریج (بی ای سی سی ایس)

Bioenergy with carbon capture and storage (BECCS)

 بائیو انرجی کی پیداوار کے دوران پیدا ہونے والا کاربن ذخیرہ کیا جاتا ہے، اور اس وجہ سے وہ فضا میں داخل نہیں ہوتا،   اسے بی ای سی سی ایس (بائیوانرجی ود کاربن کیپچر اینڈ اسٹوریج – BECCS) کہا جاتا ہے۔ نظریاتی طور پر، اس کا مطلب یہ  ہے کہ توانائی منفی کاربن فوٹ پرنٹ کے ساتھ پیدا ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت صرف چند  بی ای سی سی ایس منصوبے کام کر رہے ہیں، اور ناقدین زمین کے بڑے رقبے کو بائیو انرجی کی پیداوار کے لئے استعمال  سے متعلق اخراجات پر سوال اٹھاتے ہیں، جسے بصورت دیگر خوراک کی پیداوار یا حیاتیاتی تنوع کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

بائیو ماس

Biomass

بائیوماس کوئی بھی نامیاتی (organic) مادہ ہے جو پودوں، جانوروں اور جرثوموں بشمول زراعت، جنگلات اور دیگر صنعتی نامیاتی فضلے سے آتا ہے۔  بائیوماس کو توانائی پیدا کرنے کے لئے براہ راست جلایا جا سکتا ہے، یا بائیو ایندھن میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

برفانی تودہ

Cryosphere

برفانی تودے  یا کرایواسفیئرکی اصطلاح سے مراد سیارے کے وہ علاقے ہیں جہاں زیادہ تر پانی منجمد شکل میں ہے، یعنی  قطبی علاقے اور اونچے پہاڑ۔ دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلے، کوہ ہندوکش ہمالیہ میں، جما ہوا پانی گلیشیئرز، آئس کیپ، برف، پرما فراسٹ اور دریاؤں اور جھیلوں پر برف کی شکل میں موجود ہے۔

پ

پیرس ایگریمنٹ

Paris Agreement

پیرس معاہدہ ایک تاریخی بین الاقوامی معاہدہ ہے جس کا مقصد عالمی اوسط درجہ حرارت میں اضافے کو “صنعتی ترقی سے پہلے کی سطح سے 2 ڈگری سیلسیس سے بھی نیچے” تک محدود کرنا ہے، اور ‘حرارت کو 1.5C تک محدود کرنے کی کوششوں کو آگے بڑھانا ہے۔

پیرس معاہدے کے تحت، ممالک اخراج کو کم کرنے اور آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کے موافق ڈھالنے کے منصوبے پیش کرتے ہیں (جنہیں نیشنلی ڈیٹرمنڈ کونٹریبوشن – این ڈی سی- NDC کہا جاتا ہے)، اور یہ فرض   کیا جاتا ہے کہ وہ ہر پانچ سال بعد ان وعدوں کا جائزہ لیں گے۔ اس معاہدے میں ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے اور عالمی کاربن منڈیوں  کی مینجمنٹ کے لئے مالی معاونت کی فراہمی کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔

پارٹیکیولیٹ میٹر اور پی ایم 2.5

Particulate matter and PM 2.5

پارٹیکیولیٹ میٹر سے مراد ہوا میں پائے جانے والے ٹھوس ذرات اور مائع بوندوں کا مرکب ہے۔ کچھ ذرّات  قدرتی عمل سےوجود میں آتے ہیں، اور یہ انسانی سرگرمیوں جیسے ایندھن کو جلانے اور تعمیرات سے بھی پیدا ہوتے ہیں۔

کچھ ذرّات لوگوں کے لئے صحت کے گھمبھیر مسائل کا باعث بن سکتے ہیں، خاص طور پر وہ ذرّات جو اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ سانس لینے پر جسم موجود کی گہرائی میں داخل ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پر تشویش کا باعث 2.5 مائکرو میٹر سے کم قطر والے ذرات ہیں، جنہیں ‘پی ایم 2.5’ کہا جاتا ہے۔

people exercise in yellow smog, with ornate archway in background

نئی دہلی میں شدید سموگ کے درمیان لوگ انڈیا گیٹ کے قریب ورزش کر رہے ہیں (فوٹو: کبیر جھنگیانی/ الامی)

پرما فراسٹ

Permafrost

کوئی بھی زمین جو کم از کم دو سال تک مکمل طور پر منجمد رہتی ہے اسے پرما فراسٹ کہتے ہیں۔ پرما فراسٹ قطبی خطوں میں پایا جاتا ہے۔ پرمافراسٹ  مٹی، ریت، چٹان اور نامیاتی مواد سے بنا ہوتا ہے جسے برف جوڑے رکھتی ہے اور ہندوکش ہمالیائی خطے کے تقریباً 40 فیصد رقبے پر محیط ہے۔ موسمیاتی تبدیلی پرما فراسٹ کے پگھلنے کا سبب بن رہی ہے۔ اگرعالمی اوسط درجہ حرارت صنعتی ترقی سے پہلے کی سطح سے 2C تک بڑھ جاتا ہے، تو یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ پرما فراسٹ  40 فیصد سے زیادہ حد تک گر جائے گی۔

پرما فراسٹ کا نقصان قطبی اور پہاڑی علاقوں میں ہائیڈروولوجیکل سائیکل اور ماحولیاتی نظام میں ڈرامائی تبدیلیوں کا سبب بنے گا۔ پرما فراسٹ پگھلنے کے نتیجے میں گرین ہاؤس گیسوں کی بڑی مقدار کا اخراج بھی ہوسکتا ہے، جس کے نتیجے میں گرمی میں تیزی آۓ گی اور مزید پگھلنے کا عمل تیز ہوسکتا ہے۔

پائیدار ترقی کے اہداف

Sustainable Development Goals

پائیدار ترقی کے اہداف (SDGs) اقوام متحدہ کی طرف سے 2015 میں طے کیے گئے 17 باہم مربوط اہداف کا ایک مجموعہ ہیں، جنہیں 2030 تک حاصل  کیے جانا ہے۔ وہ دنیا کے سب سے اہم سماجی، اقتصادی اور ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے ایک تفصیلی فریم ورک فراہم کرتے ہیں۔

پائیدار ترقیاتی اہداف جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ قریبی انداز سے جڑے ہوئے ہیں ان میں ‘سستی اور صاف توانائی‘؛ بشمول دنیا بھر میں قابل تجدید توانائی کے فیصد میں اضافہ؛ موسمیاتی تبدیلی کی حد اور اثرات کو محدود کرنے کے لئے فوری ‘موسمیاتی کارروائی’ کرنا؛ اور زمین اور سمندری حیات کی حفاظت کے اہداف شامل ہیں۔

ٹپنگ پائنٹ

Tipping point

موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں، ایک ٹپنگ پوائنٹ وہ حد ہے جو، ایک بار گزر جانے کے بعد، آب و ہوا میں ایک بڑی، ناقابل واپسی، اور خود کو برقرار رکھنے والی تبدیلی کو متحرک کرتا ہے۔ محققین نے اب تک اس طرح کے 16 آب و ہوا کے ٹپنگ پوائنٹس کی نشاندہی کی ہے، اور ان کا کہنا ہے کہ ان میں سے شاید کچھ پہلے ہی گزر چکے ہیں، جس سے گرین لینڈ آئس کیپ کے گرنے اور پرما فراسٹ کے پگھلنے جیسی ناگزیر بڑی تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔

ایک اہم مثال جنوبی امریکہ میں ایمیزون برساتی جنگل ہے، جو دنیا کا سب سے بڑا برساتی جنگل ہے اور دنیا کےبڑے متنوع حیاتی ماحولیاتی نظام میں سے ایک ہے۔ ایمیزون کا، بشمول بارش پیدا کرنے اور خطے میں درجہ حرارت کو مستحکم کرنے کے، آب و ہوا پر بہت زیادہ اثر ہے۔ لیکن ایمیزون کے پانچویں حصے کے قریب برساتی جنگل کو کاٹ دیا گیا ہے یا وہ ختم ہوگیا ہے، یعنی بارش پیدا کرنے کے لئے کم درخت ہیں جن پر جنگل انحصار کرتا ہے۔ کم بارش سے جنگل کی بقاء کو خطرہ لاحق ہونے کا خدشہ ہے۔  کچھ سائنس دانوں کے مطابق، ایک ٹپنگ پوائنٹ جس پر جنگل کا انحصار ہوتا ہے اس وقت ختم ہو جائے گا جب جنگلات کی کٹائی 20-25 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ اس کے بعد چند دہائیوں میں بڑے علاقے گھاس کے میدان میں تبدیل ہو جائیں گے۔

ت

توانائی کی منتقلی

Energy transition

توانائی کا شعبہ روایتی طور پرفوسل فیولز پر سب سے زیادہ انحصار کرتا رہا ہے، اور یہ موسمیاتی تبدیلی کی بنیادی وجہ ہے۔ کوئلہ، تیل اور قدرتی گیس سے قابل تجدید توانائی کے ذرائع، جیسے شمسی اور ہوا کی طرف تبدیلی، کو توانائی کی منتقلی کہا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں کاربن کا  زیادہ اخراج نہیں ہوتا۔

تیز سیلاب

Flash floods

تیز سیلاب،  شدید اور اچانک آنے والے سیلاب ہیں، جو کہ مختصر وقت میں شدید بارش، یا برف کے تیزی سے پگھلنے جیسے واقعات سے پیدا ہوتے ہیں۔ تیز سیلاب شدید نقصان کا سبب بن سکتے ہیں کیونکہ یہ بہت کم یا بغیر کسی انتباہ کےرونما ہوتے ہیں، جس سے لوگ انخلاء یا ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔

ہندوستانی ہمالیہ میں 1986 سے اب تک 17 بڑے سیلاب آچکے ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ 20 سالوں میں ہمالیہ میں آنے والے سیلابوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ جنگلات میں زیادہ شدید آگ ہے۔

تخفیف

Mitigation

ماحول میں موسمیاتی تبدیلی کا باعث بننے والی گرین ہاؤس گیسوں کے تناسب کو کم کرنے کے لئے کئے  گئے اقدامات کو موسمیاتی تبدیلیوں کی تخفیف کہا جاتا ہے۔ تخفیف کے اقدامات میں قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی طرف منتقلی کرکے اخراج کو کم کرنا، صنعتی سرگرمیوں سے ہونے والے اخراج کو کیپچر اور ذخیرہ کرنا، اور قدرتی کاربن سنک  جیسے کہ جنگلات اور سمندری ماحولیاتی نظام کو بہتر بنانا شامل ہے۔

woman on roof holding solar panel, Asian Development Bank

بھوٹان میں ایک خاتون چھت پر سولر پینل نصب کر رہی ہے (تصویر: ایشیائی ترقیاتی بینک / فلکر / سی سی
(بائی-این سی-این ڈی 2.0)

ج

جنگلات کی کٹائی

Deforestation

انسان،  زراعت اور کان کنی جیسی سرگرمیوں کے  لئے جگہ بنانے کے لئے جنگلات کی کٹائی کرتے ہیں۔ جنگلات کی کٹائی سے گرین ہاؤس گیسوں کی بڑی مقدار فضا میں خارج ہوتی ہے، یہ حیاتیاتی تنوع اور ہماری آب و ہوا دونوں کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔

ح

حیاتیاتی تنوع

Biodiversity

کسی خاص علاقے میں پائی جانے والی زندگی کی مختلف اقسام کو حیاتیاتی تنوع کہا جاتا ہے۔ اس میں وہ جانور، پودے اور جرثومے شامل ہیں جو ایک ماحولیاتی نظام میں ایک دوسرے کے ساتھ تعامل کرتے ہیں، اور زندگی کا ایک نیٹ ورک  بناتے ہیں۔

حیاتیاتی تنوع کا تحفظ کرہ ارض پر موجود تمام زندگیوں بشمول انسانیت کی بقا کے لئے بہت ضروری ہے، کیونکہ جس ماحولیاتی نظام پر ہم خوراک، پانی اور صاف ہوا فراہم کرنے کے لئے انحصار کرتے ہیں وہ صرف اسی صورت میں کام کر سکتے ہیں جب متنوع قسم کی انواع وافر تعداد میں موجود ہوں۔ لیکن حیاتیاتی تنوع فی الحال انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے خطرے میں ہے، جس میں 10 لاکھ تک پودوں اور جانوروں کی نسلیں معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔

حیاتیاتی تنوع کے نقصان کی دیگر وجوہات ک علاوہ کچھ اہم وجوہات زمین کے استعمال میں تبدیلیاں ہیں، جیسے جنگلات کی کٹائی اور زراعت یا کان کنی کے لئے قدرتی رہائش گاہوں کی تبدیلی؛ شکار اور زیادہ استحصال؛ حملہ آور انواع؛ اور موسمیاتی تبدیلی ہیں۔

خ

خطرہ

Vulnerability

مختلف کمیونٹیز موسمیاتی تبدیلی سے غیر متناسب انداز میں متاثر ہوتی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کا خطرہ جغرافیائی محل وقوع، سماجی و اقتصادی حیثیت اور سماجی پسماندگی جیسے عوامل کی بنیاد پر مختلف ہوتا ہے۔

د

درست منتقلی یا منصفانہ منتقلی

Just transition

اخراج کو کنٹرول میں رکھنے اور موسمیاتی تبدیلیوں کو محدود کرنےکے لئے کم کاربن والی معیشت کی طرف منتقل ہونا ضروری ہے۔ لیکن ڈیکاربنائزنگ کا مطلب صنعتوں میں بڑی تبدیلیاں، جیسے معدنی ایندھن جو لاکھوں لوگوں کو ملازمت دیتی ہیں۔

‘درست یا منصفانہ منتقلی’ وہ ہے جس میں اس تبدیلی کے سماجی اور معاشی مضمرات کو مناسب طریقے سے حل کیا جاتا ہے۔ اس میں اس بات کو یقینی بنانا شامل ہے کہ کارکنوں کے حقوق اور کمیونٹیز کی ضروریات کا تحفظ کیا جائے، اور ان لوگوں کے لئے مدد اور مواقع فراہم کئے جائیں جن کی ملازمتوں کو تبدیل کرنا ضروری ہے۔

دی تھرڈ پول

The Third Pole

ہندو کش ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے اور تبتی سطح مرتفع پہ محیط خطے کو اکثر ‘تھرڈ پول’ کے نام سے جانا جاتا ہے کیونکہ اس کے برفیلے میدان، قطبی علاقوں سے باہر سب سے زیادہ منجمد پانی رکھتے ہیں۔ یہ خطہ 10 بڑے دریائی نظاموں کا منبع ہے جو تقریباً 2 بلین لوگوں کو آبپاشی، بجلی اور پینے کا پانی فراہم کرتا ہے، یہ دنیا کی 24 فیصد آبادی سے زیادہ ہے۔

ر

ریزیلی انس یا لچک

Resilience

موسمیاتی ریزیلی انس یا لچک سے مراد وہ طریقے ہیں جن میں کمیونٹیز موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے قابل ہوتی ہیں، بشمول موسمیاتی تبدیلی سے منسلک شدید موسمی واقعات کے بعد واپس بحال ہونا۔ جہاں ‘موافقت’ سے مراد آب و ہوا میں ہونے والی تبدیلیوں کے جواب میں نظام میں مستقل تبدیلی ہے، وہیں ریزیلی انس موسمیاتی تبدیلی سے متعلق تباہی کے بعد ‘معمول’ پر واپس آنے کا نام ہے۔

س

سی ایف سی (کلورو فلورو کاربن)

CFCs (chlorofluorocarbons)

سی ایف سی (یا کلورو فلورو کاربن – CFC) کاربن، کلورین اور فلورین عناصر پر مشتمل گیسیں ہیں جو سالوینٹس، ریفریجرینٹس اور ایروسول سپرے میں استعمال ہوتی ہیں۔ 20 ویں صدی میں، سی ایف سی اوزون کی تہہ کے خاتمے کے ذمہ دار ٹھہرائی گۓ- اوزون زمین کے کرّہ ہوا کی وہ تہہ ہے جو سورج کی الٹراوائلٹ شعاعوں کو روکتا ہے، اور جانداروں کو اس کے مضر اثرات سے بچاتا ہے۔

سی ایف سی کا استعمال 1987 میں طے پانے والے تاریخی مونٹریال پروٹوکول کے نتیجے میں دنیا بھر میں مرحلہ وار ختم کر دیا گیا۔

سی او پی /کوپ

COP

موسمیاتی تبدیلی کی دنیا میں، ‘سی او پی’ (COP) سے مراد یونائیٹڈ نیشن فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج (یو این ایف سی سی سی – UNFCCC) کے فریقین کی کانفرنس ہے۔ یہ سالانہ اجلاس، موسمیاتی تبدیلی پر عالمی کارروائی کے حوالے سے تبادلہ خیال کرنے کے لئے کنونشن کے 198 اراکین کو اکٹھا کرتا ہے، جس پر پہلی بار 1992 میں دستخط کئے گئے تھے۔

موسمیاتی سی او پیز میں، ملکی نمائندے مسائل پر بات کرتے ہیں جیسے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کیسے کم کیا جائے جو کرہ ارض کو گرم کرنے کا سبب بنتی ہیں؛ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے موافقت؛ اور ترقی پذیر ممالک کو معدنی ایندھن سے دور رہنے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کی زیادہ اہلیت پیدا کرنے کے لئے مالی مدد۔

آخری سی او پی، سی او پی27، نومبر 2022 میں شرم الشیخ، مصر میں منعقد ہوئی تھی۔ سی او پی28 دبئی، متحدہ عرب امارات میں 30 نومبر سے 12 دسمبر 2023 تک منعقد ہوگی۔

سمندری تیزابیت

Ocean acidification

زمین کی فضا میں خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا تقریباً 30 فیصد حصہ سمندر جذب کرتا ہے۔ جیسے جیسے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح بڑھتی ہے اسی طرح سمندری پانی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہ عمل سمندروں کی کیمیائی ساخت کو تبدیل کرتا ہے، جس سے سمندری پانی زیادہ تیزابی بن جاتا ہے، یہ عمل سمندری تیزابیت کے نام سے جانا جاتا ہے۔

سمندری تیزابیت سمندری حیاتیاتی تنوع کو بری طرح متاثر کر سکتی ہے، جیسا کہ اس عمل پر اثر پڑتا ہے جس کے ذریعے سیپ اور دیگر شیل فش جیسے جانور اپنے خول بناتے ہیں۔ مرجان کی چٹانوں کو بھی تیزابی سمندروں سے شدید خطرہ ہے۔ اس کے نتیجے میں آبادی اور معاشیات پر شدید اثرات پڑ سکتے ہیں جو آمدنی اور خوراک کے لئے سمندر پر منحصر ہیں۔

ص

صحرا بندی

Desertification

صحرا بندی زمین کے انحطاط کا ایک ایسا عمل ہے جس میں خشک یا نیم خشک علاقوں میں زرخیز اور حیاتیاتی متنوع زمین اپنی پیداواری صلاحیت کھو دیتی ہے اور بلآخر صحرا میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہ انسانی سرگرمیوں جیسے جنگلات کی کٹائی اور حد سے زیادہ مویشی چرانے کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بھی ہوسکتی ہے۔

صنعتی انقلاب

Industrial Revolution

صنعتی انقلاب یورپ اور شمالی امریکہ میں ایک اہم دور تھا، جس کا آغاز 18 ویں صدی میں ہوا، اور جس میں زرعی معیشتوں سے تکنیکی ترقی اور صنعتی مینوفیکچرنگ کی طرف منتقلی ہوئی۔

ان نئے عملوں میں استعمال ہونے والی زیادہ تر توانائی معدنی ایندھن کے استعمال سے پیدا کی جاتی تھی:  ابتداء میں کوئلہ، اور پھر تیل اور گیس کا استعمال کیا گیا۔ اس نے ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں بہت اضافہ کیا، جس سے انسانی موسمیاتی تبدیلی کا آغاز ہوا۔

ف

فوسل فیولز

Fossil fuels

فوسل فیولز میں کوئلہ، تیل اور قدرتی گیس شامل ہیں، جو کہ لاکھوں سال پہلے مرنے والے پودوں اور جانوروں کی باقیات سے بنتے ہیں۔ لہذا وہ انسانی زندگی کے دورانیے میں قابل تجدید نہیں ہیں۔ توانائی کی پیداوار کے لئے، فوسل فیول کا جلانا، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کی بڑی مقدار کو فضا میں  خارج کرتا  ہے اور یہ موسمیاتی تبدیلی کی واحد اورسب سے بڑی وجہ ہے۔

فطرت پہ مبنی حل

Nature-based solutions

انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این – IUCN) فطرت پر مبنی حل کی تعریف “قدرتی یا تبدیل شدہ ماحولیاتی نظام کے تحفظ، انتظام اور بحالی کےلئے اقدامات” کے طور پر کرتی ہے، جو “سماجی چیلنجوں کو مؤثر طریقے سے اور موافقت کے ساتھ حل کرتے ہیں، انسانی فلاح و بہبود اور حیاتیاتی تنوع کے فوائد فراہم کرتے ہیں”۔

آب و ہوا کے تناظر میں، فطرت پر مبنی حل میں ماحولیاتی نظام کا تحفظ اور بحالی شامل ہو سکتی ہے جو کاربن سنک کے طور پر کام کرتے ہیں۔ مینگروو کے جنگلات اس بات کی ایک اچھی مثال ہیں کہ فطرت پر مبنی حل کس طرح موسمیاتی تبدیلیوں میں تخفیف اور موافقت دونوں میں مدد کر سکتے ہیں: یہ کمیونٹیز کو ساحلی طوفانوں اور سیلابوں سے بچا سکتے ہیں، جبکہ کاربن کو بھی ذخیرہ کرتے ہیں۔

ق

قدرتی گیس

Natural gas

قدرتی گیس ایک فوسل فیول ہے جو بجلی پیدا کرنے، عمارتوں کو گرم کرنے، کھانا پکانے اور صنعتی سرگرمیوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ زیادہ تر میتھین پر مشتمل ہوتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ دیگر ہائیڈروکاربن جیسے ایتھین اور پروپین بھی کم مقدار میں شامل ہوتے ہیں۔

کوئلے اور تیل کے مقابلے میں، قدرتی گیس جلانے پر کم سطح پہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور فضائی آلودگی خارج ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں نے فوسل فیول سے قابل تجدید توانائی میں منتقلی کے عمل میں مدد کے لئے قدرتی گیس کو  بطور پل یا ‘ٹرانزیشن فیول‘ کے استعمال کی وکالت کی ہے۔ لیکن بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دلیل متعلقہ یا اہم معاملے سے توجہ ہٹاتی  ہے، اور یہ سستی اور کم آلودگی والی قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

قابل تجدید توانائی

Renewable energy

قابل تجدید توانائی سے مراد ہوا کی طاقت، پانی، شمسی تابکاری اور زمین کی قدرتی گرمی جیسے ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے پیدا ہونے والی توانائی ہے۔ فوسل فیول کے برعکس، قابل تجدید ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے توانائی کی پیداوار عام طور پر ماحول میں گرین ہاؤس گیسوں کو خارج نہیں کرتی ہے۔ انہیں قابل تجدید کے طور پر جانا جاتا ہے کیونکہ، زمین سے نکالے گئے فوسل فیول کے برعکس، یہ وسائل محدود نہیں ہیں۔

توانائی کی پیداوار میں فوسل فیول سے قابل تجدید ذرائع کی طرف منتقلی موسمیاتی تبدیلی کو محدود کرنے کی کوششوں کا ایک لازمی حصہ ہے۔ 2020 میں، عالمی بجلی کی پیداوار میں قابل تجدید توانائی کا حصہ 29 فیصد تک پہنچ گیا۔

اگرچہ پن بجلی قابل تجدید توانائی کی ایک شکل ہے،البتہ ڈیموں کی تعمیر سے دریا کے نظام، ان کی ماحولیات اور ان پر انحصار کرنے والے لوگوں کی زندگیوں پر نمایاں منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ لہذا اسے توانائی کی پیداوار کی ماحول دوست شکل نہیں سمجھا جاتا ہے۔

ک

کاربن کریڈٹ اور آف سیٹس

Carbon credits and offsets

کاربن کریڈٹ اور کاربن آفسیٹ کاربن ٹریڈنگ کی دو مرکزی اقسام ہیں۔ کاربن کریڈٹ بنیادی طور پر حکومتوں کی طرف سے کمپنیوں کو جاری کردہ ٹوکن ہیں جو مستقبل میں کاربن کے اخراج کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وہ کمپنیاں جو اپنے مختص ‘الاؤنس’ سے کم اخراج کرتی ہیں- وہ اضافی کاربن کریڈٹس حاصل کرتی ہیں- اور وہ کاربن مارکیٹ میں تجارت کر سکتی ہیں۔ اس طریقے سے  کمپنیوں کو اپنے اخراج کم کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔

کاربن آف سیٹ کمپنیاں بناتی ہیں۔ اگر ایک کمپنی کوئی ایسا کام کرتی ہے جس سے ماحول سے کاربن ختم ہو، جیسا کہ درخت لگانا، تو وہ اسے کاربن آف سیٹ شمار کر سکتی ہے، اور اس سے دوسری تنظیموں کے ساتھ تجارت کر سکتی ہے جو اپنے طریقہ کار سے آلودگی کے اثرات ‘ختم ‘ کرنا چاہتے ہیں۔ افراد بھی، کاربن ختم کرنے کے منصوبوں، جیسے جنگلات کے پروگرام یا قابل تجدید توانائی کی ترقی کے لئے عطیہ دے کر، اپنے کاربن کے اخراج کو ‘آف سیٹ’ کر سکتے ہیں، جو زیادہ کاربن والی سرگرمیوں سے پیدا ہوتے ہیں جیسے کہ ہوائی سفر۔

کاربن ٹریڈنگ متنازعہ ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ عملی طور پر کاربن مارکیٹ امیر ممالک، کمپنیز اور افراد کو درحقیقت اخراج کم کرنے کی بجاۓ اس سے بچ نکلنے کا راستہ دیتی ہے، وہ آرام سے پیسے خرچ کر کے آلودگی کو جاری رکھ سکتے ہیں، اور ان کا مؤثر طریقے سے انتظام کرنا مشکل ہے۔ کاربن آفسیٹ منصوبوں کے کاربن ختم کرنے کے حقیقی فائدے پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں، کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کے آب و ہوا کے مثبت اثرات میں اضافہ ہوا ہے۔

کاربن کیپچر، یوٹیلائی زیشن اینڈ اسٹوریج (سی سی ایس  اور  سی سی یو ایس)

Carbon Capture, Utilisation and Storage (CCS and CCUS)

کاربن کیپچر اینڈ اسٹوریج (یا سی سی ایس – CCS) ایک ایسا عمل ہے جو صنعتی عمل کے ذریعے پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو براہ راست روکتا ہے اور اسے فضا تک پہنچنے سے روکنے کےلئے زمین میں انجیکٹ کرتا ہے۔ کاربن کیپچر، یوٹیلائزیشن، اینڈ اسٹوریج (سی سی یو ایس – CCUS) ایک قدم آگے ہے یعنی کیپچر شدہ کاربن کو الکوحل، بائیو فیول، پلاسٹک یا کنکریٹ جیسی اشیا کی پیداوار میں استعمال کیا جاتا ہے۔

کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ کاربن کیپچر ٹیکنالوجیز کا  موسمیاتی تبدیلی کم کرنے میں اہم کردار ہے، اس سے صنعتوں کے موسمی اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے جو آلودگی پھیلانے والے ایندھن یا مواد کے استعمال کو آسانی سے نہیں روک سکتیں۔ آئی پی سی سی (IPCC)کا خیال ہے کہ سی سی ایس ٹیکنالوجیز کا موسمیاتی تبدیلی کو 2C کے اندر رکھنے میں اہم کردار ہوگا۔

لیکن دوسروں کا کہنا ہے کہ سی سی ایس اور سی سی یو ایس ٹیکنالوجیز فوسل فیول سے منتقلی میں تاخیر کی وجہ بن سکتی ہیں، اور یہ کہ ٹیکنالوجی  زیادہ تر غیر اقتصادی اور بڑے پیمانے پر غیر تجربہ شدہ ہے۔ جولائی 2023 میں، یورپی یونین اور جرمنی، فرانس اور نیوزی لینڈ سمیت 17 ممالک نے کہا کہ کاربن کیپچر ٹیکنالوجی پر انحصار محدود ہونا چاہیے کیونکہ یہ فوسل فیول کو مرحلہ وار ختم کرنے کا متبادل نہیں ہے۔

کاربن ڈائی آکسائڈ اکیویلنٹ (سی او ٹو ای)

Carbon dioxide equivalent (CO2e)

کاربن ڈائی آکسائیڈ کے برابر (سی او ٹو ای – CO2e) ایک اصطلاح ہے جو ایک واحد میٹرک کا استعمال کرتے ہوئے مختلف گرین ہاؤس گیسوں کے اثر کو سمجھنے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ ایک گیس گرین ہاؤس افیکٹ میں زیادہ حصّہ رکھتی ہے، جیسے میتھین، کی تھوڑی سی مقدار کاربن ڈائی آکسائڈ کی اتنی مقدار سے کئی گنا زیادہ کاربن ڈائی آکسائڈ مساوی ہوسکتی ہے۔

کاربن فٹ پرنٹ 

Carbon footprint

کسی شخص یا چیز کا کاربن فٹ پرنٹ گرین ہاؤس گیس کی وہ مقدار ہے، جو ان کے کسی عمل سے، براہ راست یا بالواسطہ پیدا ہوتی ہے۔اس میں شامل ہو سکتا ہے کہ وہ کیا کھاتے ہیں، وہ کیسے سفر کرتے ہیں، وہ کیا خریدتے ہیں، اور ان کی بجلی اور حرارت کیسے پیدا ہوتی ہے۔

کاربن مارکیٹ 

Carbon market

کاربن مارکیٹس، جسے ایمیشن ٹریڈنگ اسکیم بھی کہا جاتا ہے، وہ معاہدے ہیں جن کے ذریعے ممالک یا کاروبار کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے اجازت نامے خریدتے اور بیچتے ہیں، جنہیں اکثر کاربن کریڈٹ کہا جاتا ہے۔

کاربن ٹریڈنگ مارکیٹ کے تحت، کوئی ملک یا کمپنی جو اپنے کاربن کے اخراج کو ایک مخصوص متفقہ سطح سے کم کر دیتی ہے، وہ بچا ہوا اخراجی ‘الاؤنس’ کاربن کریڈٹس کی شکل میں دوسروں کو بیچ سکتی ہے جو اب بھی ان حدود سے کہیں زیادہ آلودگی پھیلا رہے ہیں۔ نظریاتی طور پر، یہ اخراج کو کم کرنے کے لئے مالی ترغیب فراہم کرتا ہے۔

کاربن ڈائی آکسائیڈ  ریموول (سی ڈی آر) اور سیکوسٹریشن

Carbon dioxide removal (CDR) and sequestration

کاربن ڈائی آکسائیڈ ریموول (سی ڈی آر – CDR) سے مراد وہ عمل ہے جس کے ذریعے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ہوا سے  نکالا جاتا ہے تاکہ یہ گرین ہاؤس گیس کے طور پر کام نہ کرے۔ جب اس کاربن کو طویل مدت تک ذخیرہ کیا جاتا ہے، تو اسے کاربن سیکوسٹریشن کہا جاتا ہے۔

 کاربن سیکوسٹریشن قدرتی طور پر ہوتا ہے، حیاتیاتی عمل مٹی، سمندر، جنگلات، گھاس کے میدانوں اور دیگر قدرتی ماحولیاتی نظاموں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑی مقدار کو ذخیرہ کرتے ہیں۔ یہ انسانی ساختہ عمل کے ذریعے، جیسے کاربن کیپچر اور اسٹوریج ٹیکنالوجیز کے ذریعے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

 سی ڈی آر اور کاربن سیکوسٹریشن کو موسمیاتی تبدیلیوں میں کمی کے لئے ضروری وسیلہ سمجھا جاتا ہے۔ آئی پی سی سی (IPCC) کہتا ہے کہ ” گرمی کو 1.5 سیلسیس تک محدود کرنے کے لئے سی ڈی آر کی ضرورت ہے”، خاص طور پر “ڈیکاربنائز سیکٹرز، جیسے صنعت، طویل فاصلی نقل و حمل، اور زراعت” میں۔ زیادہ تر نیٹ-زیرو قومی منصوبوں میں  بھی سی ڈی آر(CDR) ایک بنیادی فیچر ہے۔

کاربن سنک 

Carbon sink

کاربن سنک، کاربن ڈائی آکسائیڈ ذخیرہ کرنے کے قدرتی اور مصنوعی ذخائر ہوتے ہیں۔ کاربن سنک ماحول میں گرین ہاؤس گیسوں کے تناسب کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ صحت مند جنگلات، سمندر، مٹی، پیٹ لینڈ اور ویٹ-لینڈ تمام قدرتی کاربن سنک ہیں۔ کاربن کیپچر اینڈ اسٹوریج (سی سی ایس – CCS) ٹیکنالوجیز مصنوعی کاربن سنک کے طور پر کام کر سکتی ہیں۔

کیگالی ترمیم

Kigali Amendment

 اوزون کی تہہ کے تحفظ کے لئے 1987 میں دستخط کئے گئے عالمی معاہدے مونٹریال پروٹوکول میں 2016 میں روانڈا کے دارالحکومت کیگالی میں ایک اجلاس کے دوران ترمیم کی گئی تھی۔ کیگالی ترمیم کا مقصد ہائیڈرو فلورو کاربن (ایچ ایف سی –HFC) کی پیداوار اور استعمال کو مرحلہ وار کم کرنا ہے، یہ طاقتور گرین ہاؤس گیسیں ہیں جو اوزون کو ختم کرنے والے مادوں جیسے کہ کلوروفلورو کاربن (سی ایف سی – CFC) اور ہائیڈرو فلورو کاربن ( ایچ سی ایف سی-HCFC) کے متبادل کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔

کیوٹو پروٹوکول

Kyoto Protocol

کیوٹو پروٹوکول ایک بین الاقوامی معاہدہ تھا، جسے 1997 میں اپنایا گیا تھا، جس کا مقصد موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنا تھا۔ یہ معاہدہ 2005 میں نافذ ہوا اور اس پر 192 فریقین نے دستخط کئے (حالانکہ امریکہ نے اس معاہدے کی کبھی توثیق نہیں کی)۔ کیوٹو پروٹوکول نے تاریخی اخراج اور دیگر حالات کی بنیاد پر صنعتی ممالک کے لئے اخراج میں کمی کے پابند اہداف مقرر کئے ہیں۔

2015 میں، کیوٹو پروٹوکول کو پیرس معاہدے نے ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف عالمی کارروائی کو مربوط کرنے کے لئے ایک اہم بین الاقوامی معاہدے کے طور پر ختم کر دیا تھا۔

گ

گردشی معیشت

Circular economy

ایک گردشی معیشت میں، وسائل کو دوبارہ استعمال اور ری سائیکل کیا جاتا ہے جس سے فضلے کو کم سے کم کیا جاتا ہے اور وسائل کی کارکردگی بڑھائی جاتی ہے۔ ایک ‘سیدھی معیشت’ ماڈل کے برعکس جس میں وسائل کو نکالا جاتا ہے، استعمال کیا جاتا ہے، اور پھر ضائع کردیا جاتا ہے، ایک گردشی معیشت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ استعمال شدہ مواد کو پروڈکشن چین میں واپس لایا جائے، جس سے وسائل کے استعمال کا ایک ‘لوپ’ بنتا ہے۔

گلیشیئرز

Glaciers

گلیشیئرز، منجمد دریاؤں کی طرح آہستہ آہستہ تیرتے برفانی تودے ہوتے ہیں۔ جو قطبی علاقوں اور بلند پہاڑوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ صدیوں پر محیط عمل ہے، جب برف زمین پر گر کر برف کی موٹی تہوں کے نیچے دبتی جاتی ہے۔ ان کی حرکت کی بنیادی وجہ کشش ثقل ہے جو برف کے وزن پر اثر انداز ہوتی ہے۔

جیسے جیسے موسمیاتی تبدیلی سے دنیا کا درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے، گلیشیر تیزی سے پگھل رہے ہیں، اور برفباری انہیں واپس بھرنے کے لئے ناکافی ہے۔  گلیشیئرز پگھلنے کے اثرات سمندر کی سطح، واٹر سائیکلز اور گلیشیئرز سے دور موسمی نظام میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہمالیہ کے پگھلتے گلیشیئرز کے بارے میں مزید پڑھیں

Scientist in red waterproof conducts research in snowy mountain landscape, Himalayas

نیپال کے یالا گلیشیئر میں ‘ماس بیلنس’ کی پیمائش کرنا جو گلیشیئر کی صحت کا ایک اہم اشارہ ہے۔ (تصویر: آئی سی آئی ایم او ڈی کھٹمنڈو / فلکر، سی سی بائی این سی)

گلوبل وارمنگ

Global warming

بہت سے لوگ ‘موسمیاتی تبدیلی’ اور ‘گلوبل وارمنگ’ کی اصطلاحات کو ایک دوسرے کے متبادل استعمال کرتے ہیں۔ لیکن جہاں گلوبل وارمنگ سے مراد زمین کی سطح کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت ہے، ‘موسمیاتی تبدیلی’ میں ہوا اور بارش کے پیٹرن میں ہونے والی دیگر تبدیلیاں بھی شامل ہیں۔ انسانی سرگرمیاں جنہوں نے ماحول میں گرین ہاؤس گیسوں کی سطح میں اضافہ کیا ہے وہ گلوبل وارمنگ کے بڑے محرک ہیں۔

کچھ میڈیا آؤٹ لیٹس بحران کی شدت کو بہتر انداز میں پیش کرنے کے لئے  ‘گلوبل وارمنگ’ پر ‘گلوبل ہیٹنگ’ کی اصطلاح کو ترجیح دیتے ہیں۔

 گلیشیل لیک آؤٹ برسٹ فلڈ (جی ایل او ایف/گلوف)

Glacial Lake Outburst Flood (GLOF)

گلیشیل لیک آؤٹ برسٹ فلڈ یا جی ایل او ایف ( گلوف)، پہاڑی گلیشیئر سے پگھلنے والے پانی سے بننے والی جھیل کے پانی کا اچانک اخراج ہے، جسے برف یا مورین (گلیشیئر کے ساتھ لے جانے والی چٹانیں اور تلچھٹ) روک کے رکھتی ہیں۔ یہ سیلاب، زلزلے، برفانی تودے یا بہت زیادہ پگھلے ہوۓ پانی کے جمع ہونے سے آسکتے ہیں۔ گلوف اکثر انتہائی تباہ کن ہوتے ہیں، اور ہمالیہ کے پانیوں میں بڑھتا ہوا خطرہ ہیں۔

گرین انرجی

Green energy

گرین انرجی یا سبز توانائی سے مراد وہ توانائی ہے جو قابل تجدید ذرائع جیسے ہوا یا سورج سے حاصل ہوتی ہے۔ معدنی ایندھن کے برعکس، گرین انرجی کی پیداوار بڑے پیمانے پر کاربن کے اخراج کا باعث نہیں بنتی۔ اس بات پر بحث جاری ہے کہ آیا دریاؤں اور متعلقہ ماحولیاتی نظاموں پر اثرات کے پیش نظر بعض قابل تجدید توانائی، خصوصاً ہائیڈرو پاور کو صحیح معنوں میں ‘گرین’ کہا جا سکتا ہے یا نہیں۔

گرین ہائیڈروجن اور گرے ہائیڈروجن

Green hydrogen and grey hydrogen

چونکہ ہائیڈروجن  قابل استعمال مقدار میں  بطور قدرتی گیس موجود نہیں ہے، اس لئے خالص ہائیڈروجن مصنوعی طور پر الیکٹرولیسس جیسے طریقوں سے تیار کی جاتی ہے، ایک ایسا عمل جو پانی کو ہائیڈروجن اور آکسیجن میں تقسیم کرتا ہے۔ جب یہ عمل صاف توانائی کے ذرائع جیسے شمسی یا ہوا کی طاقت سے چلتے ہیں تو اسے گرین ہائیڈروجن کہا جاتا ہے۔ فوسل فیول سے توانائی کا استعمال کرتے ہوئے پیدا ہونے والی ہائیڈروجن کو گرے ہائیڈروجن کہا جاتا ہے۔ مزید جاننے کے لئے ہماری وضاحت یہاں پڑھیں۔

گرین ہاؤس گیس (جی ایچ جی – GHG) اور گرین ہاؤس افیکٹ

Greenhouse gas (GHG) and greenhouse effect

کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، نائٹروجن آکسائیڈ، سی ایف سی (CFCs) ، ایچ سی ایف سی (HCFCs) اور ایچ ایف سی (HFCs) سبھی کو گرین ہاؤس گیسز(GHG) کہا جاتا ہے، کیونکہ ماحول میں ان کی موجودگی سورج کی حرارت کو جذب کرتی ہے، زمین کے گرد ہوا کو شیشے کی دیواروں اور گرین ہاؤس کی چھت کی طرح گرم کرتی ہے۔ یہ گرین ہاؤس افیکٹ ہے.

انسانی سرگرمیاں جیسے فوسل فیول جلانے سے فضا میں گرین ہاؤس گیسوں کا تناسب بڑھ رہا ہے۔ یہ گرین ہاؤس افیکٹ کو بڑھا رہا ہے، زیادہ گرمی جذب کررہا ہے، اور زمین کے گرم ہونے کا سبب بن رہا ہے۔

گرین واشنگ 

Greenwashing

گرین واشنگ، ایک اصطلاح جو ماحولیات کے ماہر جے ویسٹرویلڈ نے 1986 میں وضع کی تھی، ایک ایسا عمل ہے جس میں کمپنیاں اور تنظیمیں یہ فریب پیدا کرتی ہیں کہ ان کی مصنوعات یا خدمات ماحول دوست ہیں، جب کہ حقیقت میں وہ ماحول کے لئے نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔ ‘گرین واشنگ’ میں ملوث کمپنی صارفین کی ماحول دوست مصنوعات خریدنے کی خواہشات کا استحصال کرنے کی کوشش کرتی ہے، یا اپنی سرگرمیوں میں نمایاں تبدیلی کئے بغیر ماحول کو نقصان پہنچانے والے طریقوں پر منفی عوامی اور سیاسی دباؤ ہٹانا چاہتی ہے۔

ل

لا نینا

La Niña

لانینا، ال نینو سدرن آسیلیشن (ای این ایس او-ENSO) میں ال نینو کا متضاد مرحلہ ہے۔ لا نینا کے دوران، وسطی اور مشرقی استوائی بحرالکاہل میں اوسط سے زیادہ ٹھنڈا سمندری درجہ حرارت نوٹ کیا گیا ہے۔ ال نینو کی طرح، یہ دنیا بھر میں بارش اور ماحولیاتی دباؤ کی ساخت کو متاثر کرتا ہے۔

م

موسمیاتی تبدیلی

Climate change

اقوام متحدہ نے موسمیاتی تبدیلی کی تعریف درجہ حرارت اور موسم کی ساخت میں طویل مدتی تبدیلی بیان کی  ہے۔ انسانی سرگرمیوں جیسے فوسل فیولز کو جلانے اور جنگلات کی کٹائی نے گرین ہاؤس گیسیں پیدا کی ہیں، جس نے عالمی اوسط درجہ حرارت میں اضافہ کیا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات بہت زیادہ ہیں، جن میں متواتر اور شدید موسمی واقعات، سمندر کی سطح میں اضافہ، بارش کے انداز میں خلل، اور قطبی اور پہاڑی علاقوں میں برف پگھلنا شامل ہیں۔

موسمیاتی انصاف 

Climate justice

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا تجربہ غیر متناسب ہے ، بہت سے ممالک اور کمیونٹیز جن کا حصّہ عالمی اخراج میں سب سے کم ہے، اس کے نتائج سے سب سے زیادہ خطرہ انہی کو لاحق ہے، مزید یہ کہ ان کے پاس موافقت کے حوالے سے قابلیت بھی کم ہے۔ آب و ہوا کے انصاف کی تحریک کا استدلال ہے کہ کاربن ایندھن پر مبنی ترقی سے معاشی طور پر سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے لوگوں، کمپنیوں اور ممالک کی سب سے  بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اس نمو کے اثرات کی ادائیگی کریں، اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں کی مدد کریں۔ تبدیلی

Protesters at COP27

نومبر 2022 میں سی او پی 27 کانفرنس میں مظاہرین امیر ممالک پر زور دیتے ہیں کہ وہ آب و ہوا کی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی برادریوں کو معاوضہ دیں (تصویر © میری جیکومین / گرین پیس

موسمیاتی پناہ گزین 

Climate refugees

موسمیاتی پناہ گزین وہ اصطلاح ہے جو کچھ کارکنوں اور مبصرین ان لوگوں کے لئے استعمال کرتے ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات، جیسے سیلاب یا سطح سمندر میں اضافے کی وجہ سے اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہیں۔

موسمیاتی پناہ گزین کی کوئی رسمی تعریف نہیں ہے، اقوام متحدہ کی طرف سے استعمال ہونے والے پناہ گزین کی تعریف: “وہ لوگ جو جنگ، تشدد، تنازعات یا ظلم و ستم سے جان بچا کر بھاگتے ہیں اور کسی دوسرے ملک میں تحفظ کی تلاش میں بین الاقوامی سرحد عبور کرتے ہیں” -یہ تعریف ایسے شخص کا احاطہ نہیں کرتی جو طوفان یا سمندری سطح بڑھنے کے نتیجے میں اپنا گھر بار کھو چکا ہو۔

ماحولیاتی نظام

Ecosystem

 ماحولیاتی نظام جانداروں کی ایک حیاتیاتی برادری ہوتا ہے، جس میں جانور، پودے، اور جرثومے شامل ہیں، اس کے ساتھ پانی اور مٹی کا طبعی ماحول جس میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعامل کرتے ہیں۔ ماحولیاتی نظام بہت پڑا ہوسکتا ہے، جیسے کے پورے جنگلات اور بہت سے چھوٹے ماحولیاتی نظاموں پر بھی مشتمل ہوسکتا ہے۔

مونٹریال پروٹوکول 

Montreal Protocol

مونٹریال پروٹوکول ایک بین الاقوامی ماحولیاتی معاہدہ ہے جو کہ سبسٹینسز دیٹ ڈیپلیٹ دی اوزو ن لیئر (ایسے مادے جو کہ اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچاتے ہیں) سے متعلق ہے، جس پر 1987 میں دستخط کئے گئے تھے، جس کا مقصد اوزون ڈیپلیٹنگ سبسٹینسز (او ڈی ایس)  بشمول کلورو فلورو کاربن (سی ایف سی-CFC) اور ہائیڈروکلورو فلوروکاربن (ایچ سی ایف سی-HCFC) کی پیداوار اور استعمال  روک کر اوزون کی تہہ کی حفاظت کرنا ہے۔

مونٹریال پروٹوکول کو اکثر دنیا کا سب سے کامیاب بین الاقوامی ماحولیاتی معاہدہ سمجھا جاتا ہے۔ مطالعات سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ معاہدے کے بغیر، اوزون کی تہہ 2050 تک منہدم ہو سکتی تھی۔

ن

نقصان اور تباہی

Loss and damage

موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات میں متواتر اور شدید سیلاب، گرمی کی لہریں اور سمندر کی سطح میں اضافہ شامل ہیں۔ بہت سے کیسز میں، ان تبدیلیوں کو اپنانا ناممکن ہے: جانیں ضائع ہو جاتی ہیں، زمین بانجھ ہو جاتی ہے، اور رہائش مستقل طور پر بدل جاتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے سماجی اور مالی اثرات جن سے گریز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ان کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے انہیں ‘نقصان اور تباہی’ کہا جاتا ہے۔

نقصان اور تباہی معاشی ہو سکتے ہیں، جیسے کہ غیر متوقع موسمی ساخت یا تبدیلی کی وجہ سے روزی روٹی کا نقصان یا زرعی پیداوار کا کم ہونا۔ یہ غیر اقتصادی بھی ہو سکتا ہے، جیسے ثقافتی روایات، مقامی علم، اور حیاتیاتی تنوع کا نقصان، جس کی پیمائش کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصان اور تباہی کی قیمت کون ادا کرتا ہے یہ ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے عالمی مذاکرات میں ایک اہم اور متنازعہ مسئلہ ہے۔

نقل مکانی 

Migration

جیسا کہ موسمیاتی تبدیلی سمندر کی سطح میں اضافے اور سیلاب، گرمی کی لہروں اور خشک سالی جیسے  متواتر اور شدید موسمی واقعات کا باعث بنتی ہے، دنیا بھر میں بہت سے لوگ بہتر ماحول کی تلاش میں اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ اسے اکثر موسمیاتی ہجرت کہا جاتا ہے۔  جیسے جیسے درجہ حرارت میں اضافہ ہوگا اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات بڑھیں گے، آنے والی دہائیوں میں موسمیاتی نقل مکانی میں نمایاں اضافہ متوقع ہے۔

نیشنلی ڈیٹرمنڈ کونٹریبوشن – این ڈی سی

Nationally Determined Contributions (NDCs)

2015 کے پیرس معاہدے کے تحت، ممالک کو قومی اخراج کو کم کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے موافقت کے لئے اپنی کوششوں کا ایک خاکہ تیار کرنا ہے۔ ان وعدوں کو نیشنلی ڈیٹرمنڈ کونٹریبوشن (این ڈی سی NDC) کہا جاتا ہے۔

این ڈی سیز ہر پانچ سال بعد جمع کرائے جاتے ہیں، اور یکے بعد دیگرے این ڈی سیز اپنے سابقہ سے زیادہ پرعزم (نام نہاد ‘ریچیٹ میکانزم’) ہوں گے۔ مشترکہ طور پر، یہ قومی اہداف موسمیاتی تبدیلی کی شدت اور اثرات کو کم کرنے کےلئے ایک مربوط عالمی کوشش کے مترادف ہونا چاہیے۔

نیٹ زیرو

Net zero

نیٹ زیرو ایک ایسی حالت ہے جس میں ماحول میں داخل ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کا کل اخراج ماحول سے خارج ہونے والے کاربن کے برابر ہے۔ اسے موسمیاتی غیرجانبداری بھی کہا جاتا ہے۔ 2018 میں، انٹرگوورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج نے 2050 کو آخری تاریخ کے طور پر نشان زد کیا۔  اگر پیرس معاہدہ کے تحت گلوبل وارمنگ کو 1.5C تک محدود کرنے کا ہدف ممکن بنانا ہے تو  دنیا کو نیٹ زیرو تک پہنچنا ضروری ہے۔

 لندن میں قائم غیر منافع بخش نیٹ زیرو ٹریکر اور تحقیقی اداروں کے اشتراک سےتیار کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق، برطانیہ، امریکہ، بھارت اور چین سمیت تقریباً 128 ممالک اور خطوں نے خالص صفر کا ہدف مقرر کیا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی عوامی تجارتی کمپنیوں میں سے ایک تہائی سے زائد نے بھی نیٹ-زیرو اہداف مقرر کئے ہیں۔ نیٹ زیرو اہداف والی بہت سی حکومتوں اور کمپنیوں کو ان اہداف تک پہنچنے کے لئے واضح اور بروقت راستے متعین کرنے میں ناکامی پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

ہ

ہیبی ٹیٹ فریگمنٹیشن

Habitat fragmentation

ہیبی ٹیٹ فریگمنٹیشن یا پناہ گاہوں کے ٹکڑے ہونا اس وقت ہوتی ہے جب مستقل پناہ گاہ کا ایک بڑا رقبہ، جیسے جنگل، ایک دوسرے سے الگ تھلگ کئی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ یہ حیاتیاتی تنوع کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے، کیونکہ بہت سی نسلیں پناہ گاہوں کے چھوٹے حصّوں میں زندہ رہنے سے قاصر ہیں۔ جب چھوٹی آبادیوں کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا جاتا ہے، تو یہ غیر متعلقہ افراد کے درمیان جین کے تبادلے کو بھی روک سکتا ہے، جو طویل مدت میں صحت مند آبادی کے لئے ضروری ہے۔

dhole or asiatic wild dog

جنگلی علاقوں میں 2200 سے زیادہ افراد نہیں رہ گئے ہیں، آئی یو سی این کی جانب سے ڈھول یا ایشیائی جنگلی کتے کو ‘خطرے سے دوچار’ قرار دیا جاتا ہے، جو خطرے سے دوچار انواع کی حیثیت پر نظر رکھتا ہے۔ آئی یو سی این کے مطابق، ڈھول کی رہائش گاہ کو ہاؤسنگ، تجارتی ترقی اور زراعت کے لئے تعمیر کے ذریعہ تقسیم کیا جا رہا ہے۔ (تصویر: گریگور ڈوبوئس / فلکر، سی سی بائی-این سی-ایس اے)

ہندو کش ہمالیہ

Hindu Kush Himalaya

ہندو کش ہمالیہ (یا ایچ کے ایچ – HKH) ایک اصطلاح ہے جو جنوبی اور وسطی ایشیا کے پہاڑی علاقے کے لئے استعمال ہوتی ہے جو کہ ہندو کش کے پہاڑی سلسلے (افغانستان سے تاجکستان تک) اور ہمالیہ (پاکستان سے میانمار تک) دونوں پر محیط ہے۔

انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈیولپمنٹ (آئی سی آئی ایم او ڈی – ICIMOD) کی طرف سے ہندو کش ہمالیہ کے علاقے کا 2023 کا جائزہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خطے میں ہونے والی وسیع تبدیلیوں کو بیان کرتا ہے: گلیشیئرز زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں، برف باری کے دن کم ہو رہے ہیں، اور پرمافراسٹ پگھل رہا ہے۔ ریاستوں، معاشروں اور حیاتیاتی تنوع پر اثرات جنوبی ایشیا اور اس سے آگے بہت زیادہ ہوں گے۔ رپورٹ کے بارے میں مزید یہاں پڑھیں۔

ہائیڈروکاربن

Hydrocarbons

ہائیڈرو کاربن فوسل فیول جیسے کوئلہ، پٹرولیم اور قدرتی گیس کے بنیادی اجزاء ہیں۔ کیمیائی طور پر، ہائیڈرو کاربن نامیاتی مرکبات ہیں جو کاربن اور ہائیڈروجن ایٹموں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ بجلی کی پیداوار کے لئے یا نقل و حمل میں ایندھن کے طور پر ہائیڈرو کاربن جلانے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسیں فضا میں خارج ہوتی ہیں، جو موسمیاتی تبدیلیوں میں کردار ادا کرتی ہیں۔

ہائیڈروکلورو فلورو کاربن (ایچ سی ایف سی)

Hydrochlorofluorocarbons (HCFCs)

ہائیڈروکلورو فلورو کاربن (ایچ سی ایف سی – HCFC)  کیمیائی مرکبات ہیں جن میں ہائیڈروجن، کلورین، فلورین، اور کاربن ایٹم ہوتے ہیں، جو ریفریجریشن، ایئر کنڈیشنگ،  فوم بنانے، اور ایروسول میں استعمال کے لئے  تیار کیے گئے تھے۔ یہ طاقتور گرین ہاؤس گیسیں ہیں اور انہیں مونٹریال پروٹوکول کے تحت مرحلہ وار ختم کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچاتی ہیں۔

ہائیڈرو فلورو کاربن (ایچ ایف سی)

Hydrofluorocarbons (HFCs

ہائیڈرو فلورو کاربن (ایچ ایف سی-HFC) وہ گیسیں ہیں جو ایئر کنڈیشنگ، ریفریجریشن اور دیگر صنعتوں میں استعمال ہوتی ہیں، جنہیں سی ایف سی (CFC)  اورایچ سی ایف سی (HCFC) کو تبدیل کرنے کے لئے متعارف کرایا گیا تھا کیونکہ وہ اوزون کی تہہ کو نقصان نہیں پنہچاتیں۔ تاہم، یہ طاقتور گرین ہاؤس گیسیں ہیں اور جب ان کا استعمال کیا جاتا ہے تو موسمیاتی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

 2016 میں، مونٹریال پروٹوکول میں کیگالی ترمیم کے تحت، عالمی حکومتوں نے ایچ ایف سی (HFC) کی پیداوار اور استعمال کو مرحلہ وار کم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

 اضافی معلومات: ارون وائٹ

مترجم: ناہید اسرار

  • شیئر
  • دوبارہ شایع کریں

شالینی کماری

شالینی کماری دی تھرڈ پول میں ایڈیٹوریل اسسٹنٹ ہیں۔ اس سے پہلے وہ بی بی سی ہندی کے ساتھ ڈیجیٹل جرنلزم ٹرینی کے طور پر کام کر چکی ہیں۔ وہ AJK MCRC، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی سے کنورجنٹ جرنلزم میں پوسٹ گریجویٹ ہیں۔

فرح ناز زاہدی

فرح ناز زاہدی معظم دی تھرڈ پول کی پاکستان کی ایڈیٹر ہیں۔ اس سے پہلے وہ ایکسپریس ٹریبیون میں فیچرز ڈیسک کی سربراہ کے طور پر کام کر چکی ہیں۔ ایک صحافی کے طور پر، فرح ناز کی توجہ کا مرکز انسان پر مبنی فیچر کہانیاں رہی ہیں۔ انہوں نے ماحولیاتی مسائل جیسے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، بلیو کاربن، اور جنوبی ایشیا میں پانی سے متعلق اقدامات پر رپورٹس کی ایڈیٹنگ کی ہے۔

Originally published here.

Sherry Rehman: “It is high time Pakistan learns from its climate-induced challenges”

In an exclusive interview, Pakistan’s former climate change and environmental coordination minister outlines the actions her country must take

Sherry Rehman, then Pakistan’s federal minister for climate change, at climate summit COP27 in Sharm el-Sheikh, Egypt, November 2022 (Image: Christophe Gateau / Alamy)

پاکستان کی سابقہ وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی، شیری رحمان، نومبر 2022 میں شرم الشیخ، مصر میں کوپ 27 کے موسمیاتی سربراہی اجلاس کے دوران (تصویر بشکریہ کرسٹوف گیٹو / الامی)

Farahnaz Zahidi

September 19, 2023

During her 17 months as the federal minister for climate change and environmental coordination in Pakistan, Sherry Rehman oversaw several ambitious projects aimed at increasing the country’s resilience to climate change. Her tenure, which ran from April 2022 until August 2023, coincided with climate summit COP27 at which, as a member of the G77 and China bloc, Rehman lobbied for the establishment of an international loss and damage fund.

It was also during Rehman’s incumbency that Pakistan faced one of the deadliest floods in its history, bringing the country’s vulnerability to the effects of climate change to the fore. Now with an interim caretaker government holding the reins of power until the next elected government takes over, Pakistan’s ability to steer ambitious climate resilience projects is being eyed cautiously by experts. Here, Sherry Rehman shares her thoughts on what comes next for Pakistan as it faces a future of climate uncertainty.


The Third Pole: Pakistan seems to be in the grip of consecutive crises – is the country ready to meet the challenges of climate change?

Sherry Rehman: Climate change has been one of the most under-resourced and under-powered issues in Pakistan, even though the country has become a poster child for cross-sectoral climate, pollution and environmental vulnerabilities. Pakistan is going through a climate polycrisis, so there is no one issue and no silver bullet that will fix things overnight.

However, we all know that Pakistan faces a challenging decade of climate stressors in more ways than one. Given the level of impacts we are facing due to global warming, building resilience is going to be a priority for our growing population. Adaptation needs to be taken out of its stepchild slot both in Pakistan, and in global policy-making. It needs active financing and capacity resourcing as a national emergency if the country is to survive growing heat and related shocks. 


The Third Pole: What is an example of a pressing environmental issue that you feel is not being taken seriously enough?

Sherry Rehman: Pakistan’s frontline crises are in the water and food space. Water is critical to Pakistan’s human, social and national security. It is completely underplayed in my view, given the state of dependence on one basin, which is the Indus River system. Climate solutions, particularly at the federal level, are too fragmented and under-leveraged to make the transformational shift that is needed.

Firstly, the Water Resources Ministry needs to actually start implementing its Water Policy and modernise its capacity, outreach and coordination for doing far more than prioritising long-gestation infrastructure projects. Viable rain harvesting projects need to be launched in each province and canal leakage plugged in Punjab and Sindh. Flood adaptation and wetland recharge requires a number of coordinated, community-based solutions. Many such action menus based on local solutions, including community ponds, are available in the Living Indus Initiative project.

Secondly, the Planning Ministry for its part needs to embed water adaptation into the framework it uses for development and resource allocation, and move past colonial-era infrastructure as the only road to storing water or preventing flooding. 

Nature-based solutions must be applied wherever they can

Thirdly, the Food Security Ministry needs to upscale its climate-smart agriculture solutions and build resilience tools for irrigating crops in the provinces by sharing capacity and local solutions. Agriculture is the largest consumer of water in Pakistan, particularly thirsty crops like rice and sugarcane. Sustainable irrigation models need to be promoted, not just pilot projects but those that can be upscaled, while drought-resilient seeds and new crops have to be introduced in farms across the Indus Delta region, which is fast depleting its ground water as well as its local economy.

Promoting intensive or subsidised solar tube-well usage is also not helping the water-deficit balance, because much of the ground water has dried up and transformed into a finite resource due to excessive usage and no cyclical recharge. Over-use of tube-wells is depleting all aquifers, while unchecked population growth is multiplying stresses on available water resources in the Indus Basin. Sindh has no sweet water left in its aquifers, while Punjab is running out fast.   

Woman speaking while gesturing with hands

Sherry Rehman briefs media representatives on Cyclone Biparjoy on 14 June 2023. The cyclone destroyed nearly 8,700 houses and 200 school buildings in India. (Image: Raja Imran / Alamy)

Fourth, the provinces need to take stock, create policy frameworks, and start legally enforcing flood zoning, water conservation and municipal management. Sindh has created its own water policy in 2023, but for its growing urban areas it has to connect the complex dots of improving water governance in a landscape of competing and uncoordinated municipal and land-use agencies. Big investments in the water, sanitation and health sectors can help manage urban flooding impacts, which is the one area international assistance can be made available. Wastewater treatment and desalination interventions imply capital outlays, but can be outsourced by cities in public-private partnership investment models. Different solutions will apply to mountain areas and the crisis-ridden delta areas. These, including tech-based solutions, are identified and curated in the National Adaptation Plan.

Fifth, nature-based solutions must be applied wherever they can. Mangrove ecosystems and wetland recharge projects can build nature-based buffers to flooding. Where greening budgets are slashed, the provinces can monetise existing carbon sinks, like Sindh has done to replenish and add to its mangrove cover. Whether mountain forests or delta mangroves, some percentage of trading in carbon markets can generate the liquidity to replace forest cover. The good news is that Recharge Pakistan has found itself a climate grant of USD 77 million, but once it is spread out over the provinces into one project each, the scale will not be enough for full-basin upgradation.

Pakistan needs its citizens to save water

Each province and federal territory has forests it needs to save, and leverage for climate solutions, emission reductions and water management. Across the country, flood and water management interventions reinforce each other. No hotels on riverbanks; no highways across green areas; because the environment does not degrade in silos. When biodiversity losses hit a danger zone, they take wetlands and rivers down.

Lastly, while still in the big-picture mode, Pakistan needs its citizens to save water. Per capita usage in the country is entirely unsustainable, as it stands. Under a high-warming and high population growth scenario, water demand is projected to increase by almost 60%, especially in the domestic and industrial sectors. Currently, we have one of the highest levels of per capita water usage in the world. According to the IMF, Pakistan’s per capita annual water availability as of 2017 was 1,017 cubic metres, perilously close to the scarcity threshold of 1,000 cubic metres. In 2023, many urban areas report dangerous deficits which are compounded by the murky politics of informally priced distribution.   


The Third Pole: Which projects that you initiated or worked on are particularly proud of? Where do you see them going?

Sherry Rehman: The Ministry of Climate Change’s National Adaptation Plan (NAP) is a crucial, medium-term pathway for mitigating the impacts of climate change on Pakistan’s most vulnerable sectors.

The plan’s identification of eight such sectors is a significant milestone, as it enables the creation of a comprehensive mitigation strategy. Those eight sectors include agriculture, water resources, health, disaster preparedness, biodiversity, and urban resilience. The plan’s focus on these sectors – if followed by the executing provinces – will prioritise the allocation of resources toward areas that require urgent attention. For example, disaster preparedness, planning and social safety nets.

The National Adaptation Plan is designed to be sensitive to the growing needs of the rural and urban poor (especially women and children), the youth cohorts who are key to behaviour change, and urban communities facing the new challenge of involuntary migrations. The mountain-to-delta plan for adaptation also prioritises agriculture because growing food, managing rangelands, and livestock livelihoods are fundamental to Pakistan’s current economic structure. The context, both globally and nationally, should no longer be defined as anything but a crisis of widespread hunger. The 2023 Hunger Hotspots report by the UN Food and Agriculture Organization and World Food Programme lists Pakistan as a country of “very high concern” along with Kenya, Congo, Ethiopia, Central African Republic, and Syria. There is a long list of actions to take, including the strengthening of water and food governance in Pakistan. Strengthening the shock-responsive capacity of existing social protection programs like the Benazir Income Support Programme is key. 

My cautionary note is to not lose momentum on work already started

Sherry Rehman

At the same time, the level of recurring climate emergencies calls for building the capacity of national and provincial disaster management authorities, because in the last climate disaster in 2022, Pakistan had well over 10 million people exposed to acute food insecurity. The crisis is cross-sectoral, as the NAP says. That is the only way to address it, not in policy and departmental silos.

Air pollution too is a leading environmental hazard and a killer of 128,000 people annually in Pakistan, even according to conservative estimates in recent years. Ours is a country with low emissions on a global scale, yet our urban air pollution levels are too high. The National Clean Air Policy offers low-infrastructure investments that can be made immediately by the provinces. 

Elsewhere, we have pushed very hard to develop the Living Indus Initiative. The Indus Basin is under stress from overcrowding, pollution and climate change; the river services 80-90% of our population, yet is one of the world’s most polluted. Each province – including Gilgit-Baltistan and Pakistan-administered Kashmir – has a stake in its restoration.

Fishers pass along the dry side of the Indus River in Hyderabad, southern Pakistan, in September 2018

RECOMMENDEDExperts welcome ‘futuristic’ initiative to restore Indus River in Pakistan

If followed, even incrementally, the Living Indus Initiative would repair and restore the basin’s natural resources and ecosystems. It proposes a menu of 25 interventions to initiate coordinated, executive restoration efforts. What the initiative seeks to do would be transformational, but only if it is embedded into all development projects to secure necessary financing.  

Now, all these projects require inter-ministerial focus, as well as sub-natoinal action by the provinces.


The Third Pole: What challenges will your successor face?

Sherry Rehman: My first cautionary note is to not lose momentum on work already started. If that momentum is squandered, the country’s regional needs will start changing faster than our national ability to execute policies. Climate change is real, it is accelerating across the board, and it needs high-level energy and focus. Without this momentum, even our international partners – who are extremely committed to supporting us – will lose purpose. 

Second, the issues, not just the ministry, needs the constant elevation of multiple climate, environmental and pollution agendas. Given the large, intensifying terrain of environmental, climate and pollution responses needed in Pakistan, many of which compete for capacity and resources, the identification of priorities for both government and international spaces, the development and public sector or multilateral and bilateral partners is not a new problem, but a growing one. The task of moving communities, public and business sectors in any timelined roadmap for resilience and reduction in emissions will need critical mass, regular stocktakes and more thought leadership and critical inquiry.

Third, build on acquiring serious technical capacity, because there is a deficit in the public sector. It is not a ministry for just raising climate funds, it is so much more, because so much more is needed. 


The Third Pole: Do you see carbon trading as a realistic opportunity for Pakistan?

Sherry Rehman: Absolutely! This has already begun, with Sindh taking a lead in monetising its carbon sequestration and ploughing investments back into regrowing its mangroves, which absorb four times as much carbon as any other forest. The Sindh government’s Delta Blue Carbon Project, aimed at restoring 350,000 hectares of mangroves, is a pioneering step towards voluntary carbon markets. Mitigation capacity could also be potentially increased with the restoration of the mangrove forests: 27 million tonnes of CO2-equivalent emissions could be reduced over the life cycle of this project.

Carbon trade resources could also help us to establish climate-smart agriculture opportunities for small-scale farmers. Green jobs should continue to prioritise indigenous women, as training affords them both incomes and sustainable connections with conserving natural capital. 

A tree planting programme in Thailand

RECOMMENDEDExplainer: Can carbon markets help South Asia tackle climate change?

Climate finance, and especially carbon trading, is new and unfamiliar territory for many developing countries, but the work has begun. At the federal level, we have ensured that a carbon and nature registry has already been initiated with the World Bank to better leverage carbon markets. This needs to be implemented fast, as does the identification of other sectors such as waste, for carbon monetisation. During my tenure, we signed a collaboration agreement with Verra, a global standard-setting body, to share knowledge on carbon markets and the carbon credit certification process. Carbon taxation and emission caps must also be explored for a second-cascade series of actions as the framework is implemented. Globally too, the rulebook for such trade is still evolving.


The Third Pole: With COP28 coming up, what do you see the future holding for Pakistan?

Sherry Rehman: While the establishment of the Loss and Damage Fund [at COP27] was a huge achievement, developing countries need promises made at COP27 to materialise into substantial support. With the international public sector undergoing financial challenges, this remains to be seen.

A substantial reduction in emissions is also needed, not just commitments. International emissions have not gone down, but are on the rise. Each COP should incentivise substantial and targeted reductions in fossil fuel emissions from the developed world. Countries on the frontline of climate stress, like Pakistan, are already facing the burn.

More work is also needed on addressing the lack of data on how future environmental changes will affect us. Mapping the scale of vulnerability is crucial, which demands comprehensive data; the absence of a UN vulnerability index is sorely felt when attempting to understand climate vulnerability.

COP28 should also focus on climate justice, particularly by listening to and considering the perspectives and needs of the global South during negotiations.

  • SHARE
  • REPUBLISH

Farahnaz Zahidi

Farahnaz Zahidi Moazzam is the Pakistan Editor at The Third Pole. Prior to this, she has worked as Head of the Features Desk at The Express Tribune. As a journalist, Farahnaz’s focus has been human-centric feature stories. She has edited reports on environmental issues like solid waste management, blue carbon, and water initiatives in South Asia.

Originally published here.

وقت آگیا ہے کہ پاکستان موسمیاتی آزمائشوں سے سبق سیکھے: شیری رحمان

ایک خصوصی انٹرویو میں، پاکستان کی سابق وزیر براۓ موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی ہم آہنگی نے ان اقدامات کا خاکہ پیش کیا جو ملک کو اٹھانے چاہئیں۔

فرح ناز زاہدی

ستمبر 19, 2023

پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی ہم آہنگی کی وفاقی وزیر کے طور پر اپنے 17 ماہ کے دوران، شیری رحمٰان نے کئی پرجوش منصوبوں کی نگرانی کی جن کا مقصد ملک کی موسمیاتی تبدیلی کے خلاف لچک کو بڑھانا تھا۔  شیری رحمان نے اپنے وزارتی دور کے دوران، جو کہ اپریل 2022 سے اگست 2023 تک تھا، کوپ 27 میں شرکت کی اور بطور جی77 اور چینی بلاک کی رکن ایک بین الاقوامی نقصان اور تباہی فنڈ کے قیام کے لئے کوششیں کیں۔ 

  پاکستان کو اپنی تاریخ کے مہلک ترین سیلابوں میں سے ایک کا سامنا بھی رحمان کے دور وزارت میں کرنا پڑا، جس سے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے ملک کو دوچار خطرات سامنے آۓ۔ فی الوقت، جب تک کہ اگلی منتخب حکومت اقتدار سنبھال نہیں لیتی اقتدار کی باگ ڈور عبوری نگراں حکومت کے پاس ہے، اور اس دوران موسمیاتی لچک کے پرعزم منصوبوں کو آگے بڑھانے کی پاکستان کی صلاحیت پر ماہرین  گہری نظر رکھے ہوۓ ہیں۔ یہاں، شیری رحمان اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہیں کہ پاکستان کے لئےآگے کیا ہوگا کیونکہ اسے موسمیاتی غیر یقینی مستقبل کا سامنا ہے۔


دی تھرڈ پول: ایسا لگتا ہے کہ پاکستان لگاتار بحرانوں کی لپیٹ میں ہے – کیا ملک موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نمٹنے کے  لئے تیار ہے؟

شیری رحمان: موسمیاتی تبدیلی پاکستان میں سب سے کم وسائل اور کم پاور والے مسائل میں سے ایک رہا ہے، حالانکہ یہ ملک کراس سیکٹرل آب و ہوا، آلودگی اور ماحولیاتی خطرات کا پوسٹر چائلڈ بن چکا ہے۔ پاکستان ایک وقت میں متعدد موسمیاتی بحرانوں سے گزر رہا ہے، اس لئے کوئی ایک مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی جادو کی گولی ہے جو راتوں رات معاملات ٹھیک کردے۔ 

تاہم، ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کو ایک سے زائد طریقوں سے موسمیاتی تناؤ کی ایک مشکل دہائی کا سامنا ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہمیں جس سطح کے اثرات کا سامنا ہے، اس کے پیش نظر، لچک پیدا کرنا ہماری بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے ایک ترجیح بننی جا رہی ہے۔ ضروری ہے کہ پاکستان اور عالمی پالیسی سازی، موافقت کے ساتھ سوتیلی اولاد جیسا سلوک ختم کرے۔ اگر ملک کو بڑھتی ہوئی گرمی اور اس سے متعلقہ جھٹکوں سے بچانا ہے تو اسے قومی ایمرجنسی کے تحت فعال فنانسنگ اور صلاحیت جیسے وسائل کی ضرورت ہے۔ 


دی تھرڈ پول: ماحولیاتی مسئلے کی ایسی کیا  ایک مثال ہے جسے آپ کے نزدیک  سنجیدگی سے نہیں
لیا جا رہا ہے؟

شیری رحمان: پاکستان کے فرنٹ لائن بحران پانی اور خوراک کے حوالے سے ہیں۔ پانی پاکستان کی انسانی، سماجی اور قومی سلامتی کے لئے اہم ہے۔ واحد بیسن یعنی دریاۓ سندھ کے سسٹم پر انحصار دیکھتے ہوۓ میری نظر میں اسے کم اہمیت دی گئی ہے۔ موسمیاتی حل بہت زیادہ بکھرے ہوئے ہیں، خاص طور سے وفاقی سطح پر، اور ضرورت کے مطابق تبدیلی لانے کے لئے کم کارآمد ہیں۔

سب سے پہلے، واٹر ریسورس منسٹری کو اپنی آبی پالیسی پر عمل درآمد شروع کرنے اور طویل المدتی بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو ترجیح دینے سے کہیں زیادہ کام کرنے کے لئے اپنی صلاحیت، رسائی اور رابطہ کاری کو جدید بنانے کی ضرورت ہے۔ ہر صوبے میں رین ہارویسٹنگ کے قابل عمل منصوبے شروع کئے جائیں اور پنجاب اور سندھ میں نہروں کے رساؤ کو بند کیا جائے۔ سیلاب کی موافقت اور ویٹ لینڈ ریچارج کے لئے متعدد مربوط، کمیونٹی پر مبنی حل کی ضرورت ہوتی ہے۔ بشمول کمیونٹی تالاب کے، مقامی حل پر مبنی ایسے بہت سے ایکشن مینیو، لیونگ انڈس انیشیٹو پروجیکٹ میں دستیاب ہیں۔

دوم، پلاننگ منسٹری کو پانی کی موافقت کو اپنے فریم ورک میں شامل کرنے کی ضرورت ہے جسے وہ ترقی اور وسائل کی تقسیم کے لئے استعمال کرتی ہے، اور ضروری ہے کہ نوآبادیاتی دور کے بنیادی ڈھانچے کو پانی ذخیرہ کرنے یا سیلاب کو روکنے کا واحد راستہ نہ سمجھا جاۓ۔

فطرت پر مبنی حل جہاں بھی ممکن ہو لاگو کئے جائیں۔

تیسرا، فوڈ سیکیورٹی منسٹری کو اپنے کلائمیٹ اسمارٹ ایگریکلچر سلوشنز کو بہتر بنانے اور صوبوں میں فصلوں کی آبپاشی کے لئے استعداد اور مقامی حل کے اشتراک سے لچکدار وسیلے بنانے کی ضرورت ہے۔ زراعت پاکستان میں پانی کا سب سے بڑا صارف ہے، خاص طور پر چاول اور گنے جیسی پیاسی فصلیں۔ نہ صرف پائلٹ پراجیکٹس بلکہ جن کو بڑھایا جا سکتا ہے ایسے پائیدار آبپاشی کے ماڈلز کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، جبکہ خشک سالی سے بچنے والے بیج اور نئی فصلیں انڈس ڈیلٹا میں متعارف کروائی جائیں، جو کہ تیزی سے زیرزمین پانی اور مقامی معیشت کو ختم کررہی ہے۔

انتہائی یا سبسڈی والے شمسی ٹیوب ویل کے استعمال کو فروغ دینا بھی پانی کی کمی کے توازن میں مدد نہیں کر رہا ہے، کیونکہ زیادہ استعمال اور سائیکلیکل ری چارج نہ ہونے کی وجہ سے زیر زمین پانی کا زیادہ تر حصہ خشک ہو کر ایک محدود وسائل میں تبدیل ہو گیا ہے۔ ٹیوب ویلوں کا زیادہ استعمال تمام آبی ذخائر کو ختم کر رہا ہے، جبکہ آبادی میں بےدریغ اضافہ انڈس بیسن میں دستیاب پانی کے وسائل پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔ سندھ کے آبی ذخائر میں میٹھا پانی نہیں بچا جب کہ پنجاب میں تیزی سے پانی ختم ہو رہا ہے۔

Woman speaking while gesturing with hands

شیری رحمان 14 جون 2023 کو میڈیا کے نمائندوں کو سمندری طوفان بپرجوئے پر بریفنگ دے رہی ہیں۔ اس طوفان نے بھارت میں تقریباً 8700 مکانات اور 200 اسکولوں کی عمارتیں تباہ کر دیں۔ (تصویر: راجہ عمران/الامی)

چوتھا، صوبوں کو جائزہ لینے، پالیسی فریم ورک بنانے، اور قانونی طور پر فلڈ زوننگ، پانی کے تحفظ، اور میونسپل مینجمنٹ کے نفاز کرنے کی ضرورت ہے۔ سندھ نے 2023 میں اپنی واٹر پالیسی بنائی، لیکن اپنے بڑھتے ہوئے شہری علاقوں کے لئے، اسے مسابقتی اور غیر مربوط میونسپل اور زمین کے استعمال کی ایجنسیوں کے بیچ واٹر گورننس کو بہتر بنانے کے پیچیدہ نقطوں کو جوڑنا ہوگا۔ پانی، صفائی ستھرائی اور صحت کے شعبوں میں بڑی سرمایہ کاری سے شہری سیلاب کے اثرات کو سنبھالنے میں مدد مل سکتی ہے، یہ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں بین الاقوامی تعاون مددگار ہوسکتا ہے۔ گندے پانی کی صفائی اور کھارے پانی کو صاف کرنے کا مطلب سرماۓ کا استعمال ہے، لیکن پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ انویسٹمنٹ ماڈلز کے تحت شہر اسے آؤٹ سورس کرسکتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں اور بحران زدہ ڈیلٹا علاقوں پر مختلف حل لاگو ہوں گے۔ یہ، بشمول ٹیکنالوجی پر مبنی حل، نیشنل اڈاپٹیشن پلان میں شناخت اور ترتیب دیے گۓ ہیں ۔ 

پانچواں، فطرت پر مبنی حل جہاں بھی ممکن ہو لاگو کئے جائیں۔ مینگروو ایکو سسٹم اور ویٹ لینڈ ریچارج پروجیکٹس سیلاب کے لئے فطرت پر مبنی بفر بنا سکتے ہیں۔ جہاں سبزکاری کے بجٹ میں کٹوتی ہوئی ہے، وہیں صوبے موجودہ کاربن سنکس سے رقم کما سکتے ہیں، جیسا کہ سندھ نے اپنے مینگروو کے احاطہ میں اضافہ کرنے کے لئے کیا ہے۔ چاہے پہاڑی جنگلات ہوں یا ڈیلٹا مینگرووز، کاربن منڈیوں میں تجارت کا کچھ فیصد جنگلات کے احاطے بڑھانے کے لئے لیکویڈیٹی پیدا کر سکتا ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ ریچارج پاکستان کو 77 ملین امریکی ڈالر کی کلائمیٹ گرانٹ مل گئی ہے، لیکن ایک بار جب اسے صوبوں میں ایک ایک پروجیکٹ میں پھیلا دیا جائے گا، تو یہ مکمّل بیسن اپ گریڈیشن کے لئے کافی نہیں ہوگا۔

پاکستان کے شہریوں کو پانی بچانے کی ضرورت ہے

ہر صوبے اور وفاقی علاقے میں جنگلات ہیں جنہیں بچانے کی ضرورت ہے، تاکہ موسمیاتی حل، اخراج میں کمی، اور پانی کے انتظام کے لئے کارآمد ہوں۔ ملک بھر میں سیلاب اور پانی کے انتظام کے اقدامات ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ دریا کے کنارے کوئی ہوٹل نہیں؛ سبز علاقوں میں کوئی شاہراہ نہیں؛ کیونکہ ماحول تنہا خراب نہیں ہوتا۔ جب حیاتیاتی تنوع نقصان کی خطرناک حد تک پنہنچ جاتا ہے، تو وہویٹ لینڈز اور ندیوں کو بھی ساتھ لے جاتا ہے۔

آخر میں، بڑے عزائم اپنی جگہ لیکن پاکستان کے شہریوں کو پانی بچانے کی ضرورت ہے۔ فی الوقت، ملک میں فی کس استعمال بلکل غیر پائیدار ہے۔ زیادہ گرمی اور آبادی میں اضافے کےتناظر میں، پانی کی طلب میں تقریباً 60 فیصد اضافہ متوقع ہے، خاص طور پر گھریلو اور صنعتی شعبوں میں۔ اس وقت، ہمارے پاس دنیا میں فی کس پانی کا استعمال بلند ترین سطح پر ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق، 2017 تک پاکستان کی فی کس سالانہ پانی کی دستیابی 1,017 کیوبک میٹر تھی، جو حد قلّت 1,000 کیوبک میٹر کے خطرناک حد تک قریب ہے۔ 2023 میں، کئی شہری علاقوں سے  خطرناک خسارے کی رپورٹس آئی ہیں جو غیر رسمی طور پر قیمتوں کی تقسیم کی گھناؤنی سیاست کی وجہ سے بڑھ گئے ہیں


دی تھرڈ پول:  آپ نے جو منصوبے شروع کئے  یا جن پر کام کیا ان میں سے کون سے خاص طور پر
قابل ذکر ہیں؟ آپ  ان کا کیا مستقبل دیکھتی ہیں؟

شیری رحمان:  منسٹری آف کلائمیٹ چینج کا نیشنل اڈاپٹیشن پلان (این اے پی) پاکستان کے سب سے زیادہ کمزور شعبوں پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لئے ایک اہم، درمیانی مدت کا راستہ ہے۔ 

منصوبے کی طرف سے ایسے آٹھ شعبوں کی نشاندہی ایک اہم سنگ میل ہے، کیونکہ یہ تخفیف کی ایک جامع حکمت عملی کی تشکیل میں مدد کرتی ہے۔ ان آٹھ شعبوں میں زراعت، آبی وسائل، صحت، آفات کی تیاری، حیاتیاتی تنوع اور اربن ریزیلینس (شہری لچک) شامل ہیں۔ منصوبے کا فوکس یہ شعبے ہیں اور اگرعملدرآمد کرنے والے صوبے اس کی پیروی کریں تو منصوبے میں ان علاقوں کے لئے وسائل مختص کرنے کو ترجیح دی جاۓ گی جن پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، آفات کی تیاری، منصوبہ بندی اور سماجی تحفظ۔

 نیشنل اڈاپٹیشن پلان ایک حساس منصوبہ ہے جو دیہی اور شہری غریبوں (خاص طور پر خواتین اور بچوں) کی بڑھتی ہوئی ضروریات، نوجوانوں کے گروہ جو رویے میں تبدیلی کے لئے اہم ہیں، اور شہری برادریوں جن کو غیرضروری نقل مکانی کے نئے چیلنج کا سامنا ہے کو سامنے رکھتے ہوۓ ڈیزائن کیا گیا ہے۔ موافقت کے لئے پہاڑ تا ڈیلٹا منصوبہ بھی زراعت کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ خوراک کی افزائش، رینج لینڈز کا انتظام اور مویشیوں کے ذریعہ معاش پاکستان کے موجودہ معاشی ڈھانچے کے لئے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ عالمی اور قومی سطح پر اس سیاق و سباق کو وسیع پیمانے پر بھوک کے بحران کے سوا کسی اور چیز سے تعبیر نہیں کیا جانا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن اور ورلڈ فوڈ پروگرام کی 2023 ہنگر ہاٹ سپاٹ رپورٹ میں کینیا، کانگو، ایتھوپیا، وسطی افریقی جمہوریہ اور شام کے ساتھ پاکستان کو “انتہائی تشویشناک” ملک کے طور پر شمار کیا گیا ہے۔ پاکستان میں پانی اور فوڈ گورننس کو مضبوط بنانے سمیت اقدامات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے موجودہ پروگراموں کی دھچکوں سے نمٹنے کی صلاحیت بہتر بنانے کی ضرورت ہے جو سماجی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

میرا مشورہ یہ ہوگا کہ پہلے شروع کیے گئے کام کی رفتار کو سست نہ ہونے دیا جائے۔

ساتھ ہی، متواتر آنے والی موسمیاتی ہنگامی صورتحال، قومی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ حکام کی صلاحیت کو بڑھانے کا عندیہ ہے، کیونکہ 2022 میں آئی موسمیاتی آفت میں، پاکستان میں 10 ملین سے زیادہ افراد شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہوۓ۔ جیسا کہ این اے پی کا کہنا ہے کہ بحران مختلف شعبوں پر مشتمل ہے۔ اس سے نمٹنے کا یہی واحد طریقہ ہے، جو پالیسی اور محکمانہ تقسیم میں رہتے ہوۓ نہیں ہوسکتا۔

فضائی آلودگی بھی ایک اہم ماحولیاتی خطرہ ہے اور حالیہ برسوں کےمحتاط اندازوں کے مطابق پاکستان میں سالانہ 128,000 افراد کا قاتل ہے۔عالمی سطح پر  ہمارا ملک کم اخراج رکھتا ہے، پھر بھی ہمارے شہری فضائی آلودگی کی سطح بہت زیادہ ہے۔ نیشنل کلین ایئر پالیسی کم انفراسٹرکچر سرمایہ کاری کی پیشکش کرتی ہے جو صوبے فوری طور پر کر سکتے ہیں۔

دوسری جگہوں پر، ہم نے لیونگ انڈس انیشی ایٹو تیار کرنے کے لئے بہت محنت کی ہے۔ انڈس بیسن زیادہ ہجوم، آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے دباؤ کا شکار ہے۔ دریا ہماری 80-90 فیصد  آبادی  کو تقویت دیتا ہے، اس کے باوجود دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ علاقوں میں سے ایک ہے۔ ہر صوبہ – بشمول گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر، اس کی بحالی میں حصہ دار ہے۔ 

اگر اس کی پیروی کی جاتی ہےتو بتدریج،  لیونگ انڈس انیشی ایٹو بیسن کے قدرتی وسائل اور ماحولیاتی نظام کی مرمت اور بحالی کرے گا۔ یہ مربوط، انتظامی بحالی کی کوششوں کو شروع کرنے کے لیے 25 اقدامات کا ایک مینو تجویز کرتا ہے۔ یہ اقدام جو کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ تبدیلی کا باعث ہوگا، لیکن صرف اس صورت میں جب اسے تمام ترقیاتی منصوبوں میں شامل کیا جائے تاکہ ضروری مالی اعانت حاصل کی جاسکے۔

اب ان تمام منصوبوں پر بین وزارتی توجہ کے ساتھ ساتھ صوبوں کی جانب سے ذیلی قومی کارروائی کی ضرورت ہے۔


آپ کے بعد آنے والے ہم منصب کو کن چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا؟

شیری رحمان: میری تاکید ہے کہ پہلے سے شروع اقدامات کو جاری رہنے دیں۔ اگر اس رفتار کو روکا گیا تو ملک کی علاقائی ضروریات ہماری پالیسیوں پر عمل درآمد کی قومی صلاحیت سے زیادہ تیزی سے بدلنا شروع ہو جائیں گی۔ موسمیاتی تبدیلی حقیقی ہے، یہ تیزتی جا رہی ہے، اور اسے اعلیٰ سطحی توانائی اور توجہ کی ضرورت ہے۔ اس رفتار کے بغیر، ہمارے بین الاقوامی شراکت دار بھی جو ہماری حمایت کے لئے انتہائی پرعزم ہیں، اپنا مقصد کھو دیں گے۔

دوسرے، صرف وزارت ہی نہیں، مسائل سے متعلق، آب و ہوا، ماحولیاتی اور آلودگی کے متعدد ایجنڈوں کی مسلسل بہتری کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ماحولیات، موسمیات اور آلودگی کے لئےوسیع اور شدید اقدامات کی ضرورت ہے، جن میں سے کئی صلاحیتوں اور وسائل کے لئے مقابلہ کرتے ہیں، اس تناظر میں کس کو ترجیح دی جاۓ اسکی نشاندہی  حکومت اور بین الاقوامی سطح پر، ڈویلپمنٹ اور عوامی شعبے یا کثیر جہتی اور دو طرفہ شراکت داروں کے لئے کوئی نیا نہیں، بلکہ بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔ اخراج میں لچک اور کمی کے لئے کسی بھی مخصوص مدّت کے روڈ میپ کے مطابق کمیونٹیز، عوامی اور کاروباری شعبوں کو منتقل کرنے کے لئے اہم ذرایع، باقاعدہ وسائل کا جائزہ، اور زیادہ سوچی سمجھی قیادت اور تنقیدی تفتیش کی ضرورت ہوگی۔

تیسرا، سنجیدہ تکنیکی صلاحیت کا حصول اختیار کریں، کیونکہ پبلک سیکٹر میں اسکی کمی ہے۔ یہ صرف موسمیاتی فنڈز اکٹھا کرنے کی وزارت نہیں ہے، یہ اس سے کہیں زیادہ مصرف رکھتی ہے کیونکہ اور بھی بہت کچھ کی ضرورت ہے۔


دی تھرڈ پول: کیا آپ کاربن ٹریڈنگ کو پاکستان کے لئے ایک حقیقت پسندانہ موقع سمجھتی ہیں؟

شیری رحمان: بالکل! اسکا آغاز پہلے ہی ہو چکا ہے، سندھ نے اپنا کاربن سیکوئیزیشن کمانے میں پیش قدمی کی اور اپنے مینگرووز کو دوبارہ اگانے کے لئے سرمایہ کاری کا آغاز کیا، جو کسی بھی دوسرے جنگل کے مقابلے میں چار گنا زیادہ کاربن جذب کرتے ہیں۔ سندھ حکومت کا ڈیلٹا بلیو کاربن پروجیکٹ، جس کا مقصد 350,000 ہیکٹر مینگرووز کو بحال کرنا ہے، رضاکارانہ کاربن مارکیٹوں کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ مینگروو جنگلات کی بحالی کے ساتھ تخفیف کی صلاحیت میں بھی ممکنہ طور پر اضافہ کیا جا سکتا ہے: اس منصوبے کے لائف سائیکل کے دوران 27 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ کے مساوی اخراج کو کم کیا جا سکتا ہے۔ 

کاربن تجارت کے وسائل چھوٹے پیمانے پر کسانوں کے لئے موسمیاتی اسمارٹ زراعت کے مواقع قائم کرنے میں بھی ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ گرین ملازمتوں کو مقامی خواتین کو ترجیح دینا جاری رکھنی چاہیے، کیونکہ تربیت ان کو آمدنی اور قدرتی سرمائے کے تحفظ کے ساتھ پائیدار کنکشن دونوں فراہم کرتی ہے۔

موسمیاتی فنانس، اور خاص طور پر کاربن ٹریڈنگ، بہت سے ترقی پذیر ممالک کے لئے نئی اور ناواقف دنیا ہے، لیکن اس پر کام شروع ہو چکا ہے۔ وفاقی سطح پر، ہم نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ کاربن مارکیٹوں سے بہتر فائدہ اٹھانے کے لئے ورلڈ بینک کے ساتھ کاربن اور فطرت کی رجسٹری پہلے ہی شروع کر دی جاۓ۔ اس کو تیزی سے نافذ کرنے کی ضرورت ہے، ساتھ ہی کاربن منیٹائزیشن کے لئے دیگر شعبوں کی نشاندہی کرنا، جیسے فضلہ۔ میرے دور میں، ہم نے کاربن مارکیٹوں اور کاربن کریڈٹ سرٹیفیکیشن کے عمل کے بارے میں معلومات کے اشتراک کے لئے، عالمی معیار ترتیب دینے والی تنظیم، ویرا کے ساتھ تعاون کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ جب فریم ورک کا نفاز ہو تو کاربن ٹیکسیشن اور ایمیشن کیپس کا بھی اقدامات کی اگلی سیریز کے لئے جائزہ لیا جاۓ۔ عالمی سطح پر بھی، اس طرح کی تجارت  کے لئے رول بک میں اب بھی تبدیلیاں آرہی ہیں۔


دی تھرڈ پول: کوپ28 قریب ہے، آپ کی نظر میں پاکستان کے لیے مستقبل میں کیا رکھا ہے؟ 

شیری رحمان: اگرچہ  لوس اینڈ ڈیمیج فنڈ کا قیام  کوپ27 کی ایک بہت بڑی کامیابی تھی، لیکن ترقی پذیر ممالک سے کوپ27 میں کئے گئے وعدوں کو حقیقی تعاون میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی پبلک سیکٹر مالیاتی چیلنجوں سے گزر رہا ہے، دیکھئے کیا ہوتا ہے۔

صرف وعدے نہیں بلکہ اخراج میں خاطر خواہ کمی کی بھی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی اخراج کم نہیں ہوا ہے، بلکہ بڑھ رہا ہے۔ ہر سی او پی کو ترقی یافتہ دنیا سے فوسل ایندھن کے اخراج میں خاطر خواہ اور ہدفی کمی کی ترغیب دینی چاہیے۔ موسمیاتی تناؤ کے فرنٹ لائن پر موجود ممالک، جیسے پاکستان، پہلے ہی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

مستقبل میں ماحولیاتی تبدیلیاں ہم پر کس طرح اثر انداز ہوں گی اس بارے میں ڈیٹا کی کمی کو دور کرنے کے لیے مزید کام کی بھی ضرورت ہے۔ خطرے کے پیمانے کا نقشہ بنانا بہت ضروری ہے، جو جامع ڈیٹا کا مطالبہ کرتا ہے۔ موسمیاتی خطرات کو سمجھنے کی کوشش کرتے وقت اقوام متحدہ کے خطرے کے انڈیکس کی عدم موجودگی کو بہت زیادہ محسوس کیا جاتا ہے۔

کوپ28 کو موسمیاتی انصاف پر بھی توجہ دینی چاہیے، خاص طور پر مذاکرات کے دوران عالمی جنوب کے تناظر اور ضروریات کو سنیں اور ان پر غور کریں۔

فرح ناز زاہدی

فرح ناز زاہدی معظم دی تھرڈ پول کی پاکستان کی ایڈیٹر ہیں۔ اس سے پہلے وہ ایکسپریس ٹریبیون میں فیچرز ڈیسک کی سربراہ کے طور پر کام کر چکی ہیں۔ ایک صحافی کے طور پر، فرح ناز کی توجہ کا مرکز انسان پر مبنی فیچر کہانیاں رہی ہیں۔ انہوں نے ماحولیاتی مسائل جیسے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، بلیو کاربن، اور جنوبی ایشیا میں پانی سے متعلق اقدامات پر رپورٹس کی ایڈیٹنگ کی ہے۔

Originally published here in Urdu.

Lasting toll of multiple climate disasters on Pakistan’s women

More than six months on from the floods described as the worst in Pakistan’s history, experts say poverty, societal attitudes and gender norms have made it harder for women to cope with the impacts of climate change

2K10E64 Women and children, who become displaced, take refuge in a camp, following rains and floods during the monsoon season in Sehwan, Pakistan September 14, 2022. REUTERS/Akhtar Soomro

صوبہ پاکستان کے ضلع جمشورو میں، ستمبر 2022 میں سیلاب کے بعد اپنے گھروں سے محروم خواتین اور بچے۔ 2022 کے سیلاب نے پاکستان میں تقریبا 8 ملین افراد کو بے گھر کردیا۔ (تصویر بشکریہ اختر سومرو / الامی)

Women and children in Jamshoro district of Sindh province, Pakistan, in September 2022, after floods forced them from their homes. The 2022 floods displaced nearly 8 million people across Pakistan. (Image: Akhtar Soomro / Alamy)

Farahnaz Zahidi

March 8, 2023

Panahi welcomes visitors warmly into the dwelling she now calls home: a bare structure with a mud floor and thatched roof, through which sunlight is streaming in. There are no chairs or charpoys (traditional woven beds). A jerrycan for carrying water, a couple of bedsheets, a few utensils and a prayer mat are all the belongings her family has left.

“The floods swept everything away; we had to move to Thatta district for more than two months, empty-handed. Thank God we are back home,” says Panahi.

Panahi holds a chick, one of her few remaining sources of income after the 2022 floods destroyed her family’s home

Panahi holds a chick, one of her few remaining sources of income after the 2022 floods destroyed her family’s home (Image: Farahnaz Zahidi / The Third Pole)

Panahi lives in Goth Ali Muhammad Soomro, a village of about 30 households in southern Pakistan’s Sindh province. In August last year, during the disastrous monsoon floods, Panahi’s house was swept away. Where she lives now is at best a makeshift shelter from the elements.

The family’s crops were also lost to the floods, and bones show through the hides of the few surviving cows and buffaloes in the village. Panahi’s family are surviving by raising poultry. “We don’t get to eat the eggs ourselves though – we sell them to buy flour for roti,” she says.

More than six months on from the “monster monsoon” that affected one in seven people in Pakistan and displaced nearly 8 million, the impacts of the floods are no longer making headlines. Yet in Sindh province alone, more than 89,000 people were still registered as displaced at the beginning of 2023, according to the Provincial Disaster Management Authority. The floods came on the heels of a severe and prolonged heatwave, which started earlier in the year than usual.

Experts say that women, especially those of childbearing age, were severely affected by the consecutive disasters.

Gender norms and poverty increase women’s vulnerability  

“Men and women are impacted differently by climate disasters such as floods,” says Sajida Taj, a social scientist who specialises in gender and community development, and is a programme leader at the Pakistan Agricultural Research Council. “Gender norms in our society are a major reason. Gender roles are clearly divided, especially in rural settings where women are responsible for household chores, childcare and caring for the elderly.” In rural communities, while men “mostly just take care of the things outside the house,” women “cook, clean, wash clothes, prepare fodder for the livestock, milk cows and work as farm labour,” adds Abdullah Rajpar, general manager of programmes at the Indus Earth Trust, a non-profit working on sustainable development in Pakistan.

Poverty means that women are more likely to be malnourished, Rajpur explains, so that “when a disaster hits, they are hit worse. When the floodwaters start, they somehow take the mothers-in-law, the children and the cattle to higher ground. They themselves are the least of their priorities.”

The village of Goth Ali Muhammad Soomro

The village of Goth Ali Muhammad Soomro in Sindh lies about 90 minutes by car from Karachi, Pakistan’s largest city. In a scene repeated over much of Pakistan, most houses in the village collapsed or were swept away in the August 2022 floods. More than six months later, residents are still living in makeshift structures and washing in the open. (Image: Afia Salam)

Aisha Khan, head of the Mountain and Glacier Protection Organization and Civil Society Coalition for Climate Change, points out that women constitute 49% of the population “but do not have equal access to resources or opportunities”.

“This inequality contributes to their vulnerability,” says Khan.

780,000: The approximate number of homes destroyed during the 2022 Pakistan floods, with more than 1.27 million houses partially damaged

The orange-stained lips of the men, women and even children in Goth Ali Muhammad Soomro village are a tell-tale sign of this. They chew gutka, a type of tobacco product consumed across South Asia, but traditionally solely by men. “They use gutka to curb hunger as there is just not enough food,” says Rajpar. “Entire families use it. Food shortage and lack of work after the floods has made it worse. On top of this, women have to keep giving birth despite being anaemic and weak.”

Reproductive health suffers after the 2022 floods

In August 2022, the United Nations Population Fund estimated that there were 650,000 pregnant women in the flood-affected areas of Pakistan. At that point, the disaster had partially damaged or destroyed more than 1,000 health facilities in Sindh and 198 in southwest Pakistan’s Balochistan province – a situation that worsened in the following months.

“Women who are pregnant or breastfeeding face multiple challenges [during disasters],” says Tania Humayun, programme manager of the Gender and Child Cell at Pakistan’s National Disaster Management Authority (NDMA). “Their nutritional needs are not met. They’re used to living in an environment, and being displaced is not easy. They are already underprivileged. On top of this, women’s livestock and kitchen gardens are destroyed.”

In Goth Ali Muhammad Soomro, The Third Pole hears how difficult it became for pregnant women to access healthcare last year. One woman, Saima, went into labour during the floods and lost her baby. “The nearest clinic is hours away by foot, but the roads were flooded,” says Sajida, a neighbour. “With great difficulty we hired a van. It took us to a drop-off point. There onwards, the men accompanying us had to carry Saima. But by the time we reached the clinic, it was too late.”

Noreen was luckier. “This is my Gulmina; she was born during the floods,” she says. “I have eight children. Four girls and four boys.”

Pregnant women at a hospital in Sehwan, Sindh province, in September 2022, after floods hit the region

Pregnant women at a hospital in Sehwan, Sindh province, in September 2022, after floods hit the region (Image: Akhtar Soomro / Alamy)

With thousands of kilometres of roads rendered unusable and health facilities damaged or destroyed, access to contraceptives also became more difficult. A report published last month by the Human Rights Commission of Pakistan said that while clinics were set up in relief camps, “traditional cultural barriers created the biggest hurdle in allowing these women access to reproductive help. Many women reported feeling an acute sense of loss of dignity, given the unavoidable proximity to strangers, when needing to access reproductive healthcare.”

Existing barriers to human rights compounded by disasters

Flood victims are eligible for subsidised food rations, but only on production of a National Identity Card (NIC). In many families in rural Pakistan, men get their NICs first, and women can be left without one. The risk of harassment often restricts women’s mobility and means they cannot travel alone, so they may not be able to get to where rations are distributed.

In Goth Ali Muhammad Soomro village, The Third Pole meets a 10-year-old girl carrying water in a small pot, who is too shy to give her name. Sajida speaks for her: “This girl is the second of seven siblings. Her father died in a car accident. She looks after all her siblings, washes dishes and clothes, and must make many trips to the closest water pump to fetch water. Having no male family member is a challenge in itself.” Asked why the girl does not fetch more water in one go, Sajida explains that the family does not have a jerrycan anymore. “These pots are all they have.”

A women in Pakistan sits next to bowls used for carrying water

These small pots are the only containers one family has left for carrying water, forcing them to make many trips to water pumps (Image: Farahnaz Zahidi / The Third Pole)

Pakistan woman with a roller water carrier. roller water carrier. In rural Pakistan, women and girls almost always have the job of fetching water for the household

Sajida with a roller water carrier. In rural Pakistan, women and girls almost always have the job of fetching water for the household. (Image: Farahnaz Zahidi / The Third Pole)

Access to sanitation remains an issue, especially in the relief camps. Humayun, from the NDMA, remembers: “In Swat in 2009, women in Jalozai camp did not use restrooms all day, but long queues would form in the evening. We found out that helicopters flew overhead, and the restrooms were without roofs, so women avoided using them during the day. A lot of women faced urinary tract infections. This was taken into account when the camps were set up this time.”

The World Bank has said that children’s education, particularly girls’, is at risk in the aftermath of the disaster. Humayun knows of child marriages happening in flood-affected areas of rural Sindh. “When children are lost and found in camps, they marry them off – that is one less mouth to feed.”

On top of all this, Humayun points out, “in chaotic situations, gender-based violence increases”.

‘Transformative shift’ across society needed

Aisha Khan says patriarchal social attitudes in Pakistan need to change, and women must be factored into resilience and development plans. “It is not enough to do it on paper or make statements about gender equality. It must be seen and felt as part of a transformative shift in societal approaches that demonstrate inclusion and economic participation. Business as usual is not an option.”

report published in September 2022 by the International Centre for Integrated Mountain Development (ICIMOD), the UN Environment Programme and UN Women stresses that understanding gender equality and social inclusion is central to understanding people’s capacities to cope with and adapt to the impacts of climate change.

Khan is clear that cultural practices, traditional values and societal constraints that lead to gender inequity must take into account the changing times and emerging threats of a warming world.

“We are not living in normal times and therefore traditional responses will not work… the sooner we make the shift the better equipped we will be to reduce vulnerability,” she says.

  • SHARE
  • REPUBLISH

Farahnaz Zahidi

Farahnaz Zahidi Moazzam is the Pakistan Editor at The Third Pole. Prior to this, she has worked as Head of the Features Desk at The Express Tribune. As a journalist, Farahnaz’s focus has been human-centric feature stories. She has edited reports on environmental issues like solid waste management, blue carbon, and water initiatives in South Asia.

Originally published here.

متعدد موسمی آفات کے پاکستانی خواتین پر اثرات

بین الاقوامی یوم خواتین کے بارے میں اس رپورٹ میں ماہرین کا کہنا ہے کہ غربت ، معاشرتی رویوں اور صنفی اصولوں نے پاکستان میں خواتین کے لئے آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنا مشکل تر بنا دیا ہے۔

فرح ناز زاہدی

مارچ 8, 2023

پاناہی ملاقاتیوں کا اپنی رہائش گاہ میں گرم جوشی سے استقبال کرتی ہیں، متی کے فرش اور گھاس پھوس سے بنی چھت جس سے سورج کی روشنی گزر کر اندر داخل ہورہی تھی، پر مشتمل اس مختصر سے ڈھانچے کو اب وہ اپنا گھر کہتی ہیں۔ یہاں کرسیاں یا کوئی چارپائی (روایتی بنے ہوئے بستر) نہیں ہیں۔ پانی کے لئے ایک ٹن کا ڈبہ، ایک دو بیڈ شیٹیں، کچھ برتن اور ایک نماز کی چٹائی، یہ ان کے اہل خانہ کا کل اثاثہ ہے۔

پاناہی کہتی ہیں،” سی؛سیلاب سب کچھ بہا کے لے گیا۔ ہم خالی ہاتھ دو مہینے سے زیادہ عرصہ ٹھٹھہ رہے۔ خدا کا شکر ہم واپس اپنے گھر آگئے ہیں۔”

Panahi holds a chick, one of her few remaining sources of income after the 2022 floods destroyed her family’s home

پاناہی نے ایک چوزہ ہاتھ میں اٹھایا ہوا ہے، یہ ان چند اثاثوں میں سے ایک ہے جو 2022 کے سیلاب میں ان کے گھر کی تباہی کے بعد بچ گۓ۔ (تصویر بشکریہ  فرحناز زاہدی/ دی تھرڈ پول )

پاناہی جنوبی پاکستان کے صوبہ سندھ میں تقریبا 30 گھرانوں پر مشتمل گاؤں گوٹھ علی محمد سومرو میں رہتی ہیں۔ پچھلے سال اگست میں ، تباہ کن مون سون کے سیلاب کے دوران ، پاناہی کا گھر بہہ گیا تھا۔ جہاں وہ اب رہتی ہیں وہ  باقیات پر مبنی ایک عارضی پناہ گاہ ہے۔

یہ خاندان سیلاب میں اپنی فصلوں سے بھی محروم ہوگیا اور گاؤں میں بچ جانے والی گاۓ اور بھینسوں کی ہڈیاں انکی کھالوں سے باہر نظر آتی ہیں۔ پاناہی کا کنبہ مرغیاں پال کر گزارا کررہا ہے۔ وہ کہتی ہیں ، “ہمیں خود انڈے کھانے کو نہیں ملتے- ہم انہیں روٹی کا آٹا خریدنے کے لئے فروخت کرتے ہیں۔”

“عفریتی مون سون” جسے چھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور جس نے پاکستان میں ہر سات میں سے ایک فرد کو متاثر کیا اور تقریبا 8 ملین کو بے گھر کردیا، اس کے اثرات اب خبروں کا حصّہ نہیں ہیں۔ اس کے باوجود صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق، صرف صوبہ سندھ میں ، 2023 کے آغاز میں 89،000 سے زیادہ افراد اب بھی بے گھر ہیں۔ سیلاب ایک شدید اور طویل ہیٹ ویو کے فوراً بعد آیا تھا، جسکا آغاز سال میں معمول سے پہلے ہوا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین ، خاص طور پر بچے پیدا کرنے والی عمر کی خواتین، لگاتار آفات سے شدید متاثر ہوتی ہیں۔

صنفی روایات اور غربت سے خواتین کے عدم تحفظ  میں اضافہ ہوتا ہے

“موسمی آفات جیسا کہ سیلاب سے مرد اور خواتین پر مختلف اثرات ہوتے ہیں”، صنف اور کمیونٹی ڈویلپمنٹ میں مہارت رکھنے والی ایک سوشل سائنٹسٹ  ساجدہ تاج کا کہنا ہے ، جو پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل میں پروگرام لیڈر ہیں۔ “ہمارے معاشرے میں صنفی روایات ایک بڑی وجہ ہیں۔ صنفی کردار واضح طور پر تقسیم ہیں ، خاص طور پر دیہی گھرانوں  میں جہاں خواتین گھریلو کام ، بچوں اور بوڑھوں کی دیکھ بھال کے لئے ذمہ دار ہیں”۔ دیہی برادریوں میں ، جبکہ مرد “زیادہ تر صرف گھر سے باہر کے معاملات ردیکھتے ہیں”،  عورتیں “کھانا پکاتی، صاف کرتی ہیں ، کپڑے دھوتی ہیں، مویشیوں کے لئے چارہ تیار کرتی ہیں ، گائیوں کا دودھ دوہتی اور کھیتوں میں مزدوری کرتی ہیں”، پاکستان میں پائیدار ترقی پر کام کرنے والے ایک غیر منافع بخش ، انڈس ارتھ ٹرسٹ کے جنرل منیجر آف پروگرامزعبد اللہ راجپر مزید بتاتے ہیں۔

راجپر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ غربت کا مطلب یہ ہے کہ خواتین میں غذائیت کی کمی کا امکان زیادہ ہوتا ہے چناچہ “جب تباہی آتی ہے، تو وہ زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ جب سیلاب کا پانی آنا شروع ہوتا ہے تو ، وہ کسی نہ کسی طرح ساس ، بچوں اور مویشیوں کو اونچائی تک پہنچاتی ہیں۔ خود کو دوسروں پر کم ترجیح دیتی ہیں”۔

The village of Goth Ali Muhammad Soomro

سندھ میں گوٹھ علی محمد سومرو گاؤں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے بذریعہ کار 90 منٹ کے فاصلے پر واقع ہے۔ پاکستان کے بیشتر حصے دیکھے گۓ منظر کی طرح ، اگست 2022 کے سیلاب میں گاؤں کے زیادہ تر مکانات منہدم ہوگئے تھے یا بہہ گئے تھے۔ چھ ماہ سے زائد عرصہ کے بعد ، رہائشی ابھی بھی عارضی پناہ گاہوں میں رہ رہے اور کھلے آسمان کے نیچے دھلائی و صفائی کررہے ہیں۔ (تصویر بشکریہ عافیہ سلام )

ماؤنٹین اور گلیشیر پروٹیکشن آرگنائزیشن اور سول سوسائٹی کو-ایلیشن فار کلائمیٹ چینج کی سربراہ عائشہ خان نے بتایا ہے کہ خواتین آبادی کا 49 فیصد ہیں “لیکن وسائل یا مواقع تک مساوی رسائی نہیں ہے”۔

خان کہتی ہیں ، “یہ عدم مساوات ان عدم تحفظ میں معاون ہے۔”

780,000

پاکستان میں 2022 سیلاب کے دوران تباہ ہونے والے مکانات کا تخمینہ، جبکہ 1.27 ملین سے زیادہ مکانات کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے

گوٹھ علی محمد سومرو میں مردوں ، خواتین اور یہاں تک کہ بچوں کے داغدار ہونٹ اس کی ایک نمایاں علامت ہیں۔ وہ گٹکا چبا رہے ہیں ، جو ایک قسم کا تمباکو کی مصنوعات ہے جو جنوبی ایشیاء میں استعمال کی جاتی ہے ، لیکن روایتی طور پر پر اسے صرف  مرد استعمال کرتے ہیں۔ راجپر کہتے ہیں ، “وہ بھوک ختم  کرنے کے لئے گٹکے کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کھانے کو نہیں ہے۔” پورا کنبہ اسے استعمال کرتا ہے۔ سیلاب کے بعد خوراک کی کمی اور کام کی کمی نے اسے مزید خراب کردیا ہے۔ اس پر مزید یہ کہ خون کی کمی اور کمزوری کر باوجود اورتین بچے جنم دے رہی ہیں”-

2022 سیلاب کے بعد تولیدی صحت  کو نقصان پہنچا  ہے

اگست 2022 میں، یونائیٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ نے اندازہ لگایا کہ پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 650,000 حاملہ خواتین تھیں۔ اس وقت، تباہی نے سندھ میں 1,000 سے زیادہ اور جنوب مغربی پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں 198 صحت کی سہولیات کو جزوی طور پر نقصان پہنچایا یا تباہ کر دیا تھا، یہ صورت حال اگلے مہینوں میں مزید خراب ہوئی۔

پاکستان کی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) میں جینڈر اینڈ چائلڈ سیل کی پروگرام مینیجر تانیہ ہمایوں کہتی ہیں، “وہ خواتین جو حاملہ ہیں یا دودھ پلانے والی ہیں انہیں آفتوں کے دوران متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔” “ان کی غذائی ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔ وہ ایک ماحول میں رہنے کی عادی ہوتی ہیں، اور بے گھر ہونا آسان نہیں ہے۔ اوپر سے، عورتوں کے مویشی اور کچن گارڈن تباہ ہو جاتے ہیں۔”

گوٹھ علی محمد سومرو میں، دی تھرڈ پول نے معلوم کیا کہ گزشتہ سال حاملہ خواتین کے لئے ہیلتھ کیئر تک رسائی حاصل کرنا کتنا مشکل ہو گیا تھا۔ صائمہ نامی ایک خاتون سیلاب کے دوران زچگی کے دوران اپنا بچہ کھو بیٹھی۔ ایک پڑوسی، ساجدہ کہتی ہیں، ’’قریب ترین کلینک گھنٹوں کی پیدل دوری پر ہے، لیکن سڑکیں پانی میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ “بڑی مشکل سے ہم نے ایک وین کرایہ پر لی۔ یہ ہمیں ڈراپ آف پوائنٹ پر لے گئی۔ وہاں کے بعد ہمارے ساتھ آنے والے مرد صائمہ کو لے کر گۓا۔ لیکن جب ہم کلینک پہنچے تو بہت دیر ہو چکی تھی۔”

نورین خوش قسمت تھیں۔  وہ کہتی ہیں، ” یہ میری گلمینہ ہے۔ یہ سیلاب کے دوران پیدا ہوئی تھی، میرے آٹھ بچے ہیں۔ چار لڑکیاں اور چار لڑکے۔”

Pregnant women at a hospital in Sehwan, Sindh province, in September 2022, after floods hit the region

 ستمبر 2022 میں سیلاب کی زد میں آنے کے بعد، صوبہ سندھ کے شہر سیہون کے ایک ہسپتال میں حاملہ خواتین (تصویر بشکریہ اختر سومرو/الامی)

ہزاروں کلومیٹر سڑکوں کے ناقابل استعمال ہونے اور صحت کی سہولیات کو نقصان پہنچنے یا تباہ ہونے کے ساتھ، مانع حمل ادویات تک رسائی بھی مشکل ہو گئی۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے گزشتہ ماہ شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امدادی کیمپوں میں کلینک قائم کیے گئے، “روایتی ثقافتی رکاوٹوں نے ان خواتین کو تولیدی مدد تک رسائی  میں سب سے بڑی رکاوٹ پیدا کی۔ بہت سی خواتین نے بتایا کہ جب انہیں تولیدی صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کی ضرورت ہوتی ہے، اجنبیوں سے ناگزیر قربت کے پیش نظر، وقار کے نقصان کا شدید احساس ہوتا ہے۔”

انسانی حقوق کی راہ میں موجودہ رکاوٹیں آفات کے تناظر میں مزید بڑھ جاتی ہیں

سیلاب متاثرین سبسڈی والی خوراک کے راشن کے اہل ہیں، لیکن صرف نیشنل آئڈنٹیٹی کارڈ (این آئی سی) پیش کرنے پر۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں بہت سے خاندانوں میں، مرد پہلے اپنے این آئی سی حاصل کرلیتے ہیں، اور خواتین بغیر کسی شناخت کے رہ جاتی ہیں۔ ہراساں کیے جانے کا خطرہ اکثر خواتین کی نقل و حرکت کو محدود کر دیتا ہے اور اس کا مطلب ہے کہ وہ اکیلے سفر نہیں کر سکتیں، اس لیے ہو سکتا ہے وہ وہاں نہ پہنچ سکیں جہاں راشن تقسیم کیا جاتا ہے۔

گوٹھ علی محمد سومرو گاؤں میں، دی تھرڈ پول کی ملاقات ایک 10 سالہ لڑکی سے ہوئی جو ایک چھوٹے سے برتن میں پانی لے کر جا رہی تھی، اور اپنا نام بتانے میں شرما رہی تھی۔ ساجدہ اس کے بارے میں بتاتی ہیں، “یہ لڑکی سات بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کے والد ایک کار حادثے میں انتقال کرگئے۔ یہ اپنے تمام بہن بھائیوں کی دیکھ بھال کرتی ہے، برتن اور کپڑے دھوتی ہے، اور اسے پانی لانے کے لئے قریب ترین واٹر پمپ کے کئی چکّر لگانے پڑتے ہیں۔ کنبے میں کسی مرد کا نہ ہونا بذات خود ایک چیلنج ہے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ لڑکی ایک ہی بار میں زیادہ پانی کیوں نہیں لاتی، ساجدہ بتاتی ہیں کہ اب گھر والوں کے پاس ٹن کا کنٹینر نہیں ہے۔ ” ان کے پاس یہ برتن ہی رہ گۓ ہیں۔”

A women in Pakistan sits next to bowls used for carrying water

یہ چھوٹے برتن وہ واحد کنٹینر ہیں جو خاندان کے پاس  پانی بھرنے کے لئے رہ گۓ ہیں، جس کی وجہ سے وہ پانی کے پمپوں کے کئی چکر لگانے پر مجبور ہیں۔ (تصویر بشکریہ فرحناز زاہدی /دی تھرڈ پول )

Pakistan woman with a roller water carrier. roller water carrier. In rural Pakistan, women and girls almost always have the job of fetching water for the household

ساجدہ ایک رولر واٹر کیریئر کے ساتھ۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں،  گھر کے لئے پانی لانے کا کام تقریباً ہمیشہ خواتین اور لڑکیوں کا ہوتا ہے۔ (تصویر بشکریہ  فرحناز زاہدی /دی تھرڈ پول )

صفائی تک رسائی ایک مسئلہ ہے، خاص طور پر ریلیف کیمپوں میں۔ این ڈی ایم اے سے تعلق رکھنے والے ہمایوں یاد کرتے ہیں، “2009 میں سوات میں، جلوزئی کیمپ میں خواتین سارا دن بیت الخلاء استعمال نہیں کرتی تھیں، لیکن شام کو لمبی قطاریں لگ جاتی تھیں۔ ہمیں پتہ چلا کہ ہیلی کاپٹر اوپر سے گزرتے تھے، اور بیت الخلاء بغیر چھت کے تھے، اس لیے خواتین نے دن کے وقت ان کا استعمال کرنے سے گریز کیا۔ بہت سی خواتین کو پیشاب کی نالی کے انفیکشن کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بار جب کیمپ لگائے گئے تو اس بات کو مدنظر رکھا گیا۔”

ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ اس تباہی کے بعد بچوں کی تعلیم بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم خطرے میں ہے۔ ہمایوں کو معلوم ہے کہ دیہی سندھ کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بچوں کی شادیاں ہو رہی ہیں۔ “جب بچے کھو جاتے ہیں اور کیمپوں میں پائے جاتے ہیں، تو وہ ان کی شادی کر دیتے ہیں، اس طرح  کھلانے کے لئے ایک منہ کم ہوجاتا ہے۔

اس سب سے بڑھ کر، ہمایوں بتاتے ہیں، “ایسے افراتفری کے حالات میں، صنفی بنیاد پر تشدد بڑھ جاتا ہے”۔

پورے معاشرے کے  ‘رویے میں تبدیلی ‘ کی ضرورت ہے

عائشہ خان کہتی ہیں کہ پاکستان میں پدرشاہی سماجی رویوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، اور خواتین کو لچک اور تعمیراتی منصوبوں میں شامل کیا جانا چاہیے۔ “یہ کاغذ بھرنا یا صنفی مساوات کے بارے میں بیانات دینا کافی نہیں ہے۔ اسے سماجی نقطہ نظر میں تبدیلی کے حصے کے طور پر دیکھا اور سمجھا جانا چاہیے جو شمولیت اور اقتصادی شراکت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ معمول کے مطابق بزنس کا کوئی آپشن نہیں ہے۔”

ستمبر 2022 میں انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈیولپمنٹ (آئی سی آئی ایم او ڈی)، یو این انوائرنمنٹل پروگرام اور یو این ویمن کی طرف سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ صنفی مساوات اور سماجی شمولیت کو سمجھنا لوگوں کی آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے اور ان سے موافقت کی صلاحیتوں کو سمجھنے کے لئے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ .

خان واضح ہیں کہ ثقافتی طریقوں، روایتی اقدار، اور معاشرتی رکاوٹیں جو صنفی عدم مساوات کا باعث بنتی ہیں، کو بدلتے ہوئے وقت اور دنیا میں بڑھتی ہوئی گرمی  کے خطرات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

وہ کہتی ہیں، “ہم عام حالات میں نہیں رہ رہے ہیں اور اس لئے روایتی ردعمل کام نہیں کریں گے… جتنی جلدی ہم رویوں کو تبدیل کریں گے خود کو بہتر طریقے سے عدم تحفظ کم کرنے کے لئے تیار کر سکیں گے۔

  • شیئر
  • دوبارہ شایع کریں

فرح ناز زاہدی

فرح ناز زاہدی معظم دی تھرڈ پول کی پاکستان کی ایڈیٹر ہیں۔ اس سے پہلے وہ ایکسپریس ٹریبیون میں فیچرز ڈیسک کی سربراہ کے طور پر کام کر چکی ہیں۔ ایک صحافی کے طور پر، فرح ناز کی توجہ کا مرکز انسان پر مبنی فیچر کہانیاں رہی ہیں۔ انہوں نے ماحولیاتی مسائل جیسے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، بلیو کاربن، اور جنوبی ایشیا میں پانی سے متعلق اقدامات پر رپورٹس کی ایڈیٹنگ کی ہے۔

Originally published here in Urdu.

Roundtable: After COP27, what’s the path to climate resilience for Pakistan?

Experts and commentators react to developments at COP27 and what lessons can be drawn from this year’s devastating floods

Farahnaz Zahidi

December 2, 2022

The United Nations climate change summit, COP27, ended with a breakthrough agreement to provide loss and damage funding for climate-vulnerable countries last month. While many observers see this as a milestone, others have stressed the need for vulnerable countries to find their own financial resources, better models of governance and nature-based solutions.

The Pakistan delegation played a key role in getting loss and damage onto the agenda at COP27, but a lot of uncertainty remains around what this will mean for the country – one of the most vulnerable in the world to the impacts of climate change.

To discuss this, The Third Pole organised a conversation on Twitter Spaces during the conference on 16 November. Here are excerpts from that conversation, which have been edited for length and clarity.

What COP27 meant for Pakistan

Aisha Khan, chief executive of the Mountain and Glacier Protection Organisation and Civil Society Coalition for Climate ChangeCOP27 reiterated that Pakistan’s loss and damage is not going to stay just in Pakistan, with its impact felt widely. This resonated well with the audience.

Afia Salam

Afia Salam, environmental journalist and member of the Pakistan Climate Change Council

Afia Salam, environmental journalist and member of the Pakistan Climate Change Council: Loss and damage had been spoken about for the past few COPs but it wasn’t really being centred as a major discussion. Pakistan showcased its current disaster – current because it is ongoing – and also warned that this kind of disaster can have a ripple effect which will go beyond borders.

The hope is that there will be some kind of acceleration, since loss and damage has now become a point on the agenda. We will see it being mainstreamed into a proper financial mechanism within the next couple of years. Until then, it is the responsibility of countries, groups, negotiators and people to make sure that it doesn’t meet the same fate as the Adaptation Fund.

Disappointments of the Adaptation Fund

The UN system established an Adaptation Fund in 2001 to generate financial support for countries in adapting to climate change, but funding pledges were not kept to.

This is a conversation for which we don’t need to lower the volume. In fact, we need to keep that pitch up.

Khan: The Global Shield Against Climate Risks is a joint initiative launched at COP27 by the G7 and V20 [group of country most threatened by climate change] for climate insurance and disaster funding. Pakistan can benefit from the Global Shield. But to achieve ambitious outcomes, we need a significant injection of political negotiations.

Lessons from this year’s floods

Fazilda Nabeel, provincial coordinator for the Living Indus Initiative and nature-based solutions expert: The 2022 floods showed us there was no scarcity of water but water was not at the right place at the right time. We didn’t have the absorption capability to deal with floods because our forests had been degraded, especially in the rapid deforestation of riverine forests.

Fazilda Nabeel

Fazilda Nabeel, provincial coordinator for the Living Indus Initiative

We need to go back to nature-based solutions. A very good example is mangroves, which not only provide a habitat for fish, but they also provide protection against storms for the communities. They filter water, provide food and timber, all while storing huge amounts of carbon. Mangrove forests present in Indus Delta in Sindh are considered to be the largest area of arid climate mangroves in the world. We must protect and nurture these ecosystems.

In Pakistan, we are facing smog, rising urban temperatures, deteriorating air quality, pollution, and urban flooding. Urban forests can target each of these. Initiatives like the Clifton Urban Forest in Karachi, Miyawaki Forest in Lahore and tree-planting drives are all showing promising results. Other countries in the world, such as China, have gone even further and built ‘sponge cities’ designed to withstand the effects of climate change. For instance, in Harbin city the roads are made out of porous asphalt so that they can absorb rainwater.

Aisha Khan

Aisha Khan, chief executive of the Mountain and Glacier Protection Organisation and Civil Society Coalition for Climate Change

Khan: We have learnt many lessons. We have learnt that we are living in very uncertain times and the future is highly unpredictable. We have learnt that we should not rely wholly on external finances to address our local issues. We need to review our past policies to reshape future strategies. We need to have communication strategies in our local languages.

Salam: The major initial steps that should have been taken regarding disaster management in Pakistan are still pending. The Pakistan Meteorological Department had warned that monsoons this year would be more than just rainfall, but nobody was able to anticipate the level.

In other countries, the armed forces have the mandate to act as the first responder in helping other institutions in such disasters, like in America where the National Guard was called out during the Hurricane Katrina. In Pakistan, we have the National Disaster Management Authority and the Provincial Disaster Management Authority, but not an efficient District Disaster Management Authority.

First responders should have all information about their area and should have resources to tackle disasters. If any disaster hits a particular area, they should be able to handle the drainage system, and shift people to safer places.

The 2022 floods showed us there was no scarcity of water but water was not at the right place at the right time

Fazilda Nabeel, provincial coordinator for the Living Indus Initiative

Pakistan has to restructure local governance from the lowest level again, build safe havens, and do disaster and vulnerability mapping. We need to develop an efficient warning system like Bangladesh to help people evacuate quickly.

‘Our rivers should be protected’

Nabeel: As a country, we are dependent on the Indus. Our economy, our ecology and our demography are sustained by it. Yet all these are threatened because the Indus is also one of the most vulnerable natural ecosystems in the world.

Fishers pass along the dry side of the Indus River in Hyderabad, southern Pakistan, in September 2018

RECOMMENDEDExperts welcome ‘futuristic’ initiative to restore Indus River in Pakistan

It took about a year to come up with the Living Indus Initiative, with a menu of 25 interventions most of which are nature-based. The Living Indus Initiative is a restoration strategy which says our rivers should be protected and we should not allow construction in its surroundings. The Indus Protection Act has been proposed, which gives rights of legal personhood to the river so that we can sustain this important resource for future generations.

‘Trillions’ in finance now needed

Khan: The floods have been a monumental loss for Pakistan. The World Bank estimated USD 40 billion is needed for recovery. It is impossible for a country like Pakistan, which is already negotiating debt restructuring, to invest this kind of money in rehabilitation.

The 2022 floods have put the future of millions of young people at stake because it’s an intergenerational loss. We need to talk about trillions right now because of the losses we have faced and will face in the future.

Nabeel: Some initiatives under the Green Climate Fund, for instance climate-resilient agriculture, need to be expanded.

No quick fixes

Khan: We need to be mindful that the Indus is a transboundary river. There is a need to move towards shared basin management. We need to think about the ways and means of co-creating for collective ownership of policies, and to rethink relations with our neighbouring countries. We also have to rethink the way we have plotted our development trajectory.

Salam: There is no silver bullet that will take care of a centuries-old mindset which is exploitative and unjust. This goes at all the different tiers at what the global north is doing to the global south. We need to accelerate the breaking down of those kinds of exploitative barriers. 

We also have mismanagement of natural resources, which is very systemic. There is no quick fix, but we need to talk about old structures and need to roll them back. We can deal with this issue with activism, judicial action, and also education and awareness.

Farahnaz Zahidi

Farahnaz Zahidi Moazzam is the Pakistan Editor at The Third Pole. Prior to this, she has worked as Head of the Features Desk at The Express Tribune. As a journalist, Farahnaz’s focus has been human-centric feature stories. She has edited reports on environmental issues like solid waste management, blue carbon, and water initiatives in South Asia.

Originally published here.

گول میز مذاکرات: کو 27کے بعدکون سا راستہ موسمیاتی طور پر بازیافت ہونے کی صلاحیت کی طرف جاتا ہے؟

ماہرین اور مبصرین کانفرنس آف پارٹیز کوپ 27 میں ہونے والی پیشرفت پر ردعمل ظاہر کر رہے ہیں اور اس سال کے تباہ کن سیلاب سے کیا سبق حاصل کیا جا سکتا ہے

فرح ناز زاہدی

دسمبر 2, 2022

اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کی سربراہی کانفرنس، سی او پی 27 ، گزشتہ ماہ موسمیاتی خطرات سے دوچار ممالک کے لیے ضرر اور نقصان کے حوالے سے مالی امداد فراہم کرنے کے ایک اہم معاہدے کے ساتھ ختم ہوئی۔ اگرچہ بہت سے مبصرین اسے ایک سنگ میل کے طور پر دیکھتے ہیں، جبکہ دوسرے  مبصرین نے کمزور ممالک کو اپنے مالی وسائل تلاش کرنے، حکمرانی کے بہتر ماڈل اور فطرت پر مبنی حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

پاکستانی وفد نے ضرر اور نقصان کے معاملے کو کوپ27 کے لائحہ عمل کے مطابق صحیح طور پر پیش کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ لیکن مستقبل کے حوالے سے صورتحال بہت زیادہ غیر یقینی ہے کہ آگے  پا کستان کے لیے کیا ہوگا جو کہ دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے سب سے زیادہ خطرے میں ہے۔

 انہی مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے دی تھرڈ پول نے 16 نومبر کو کانفرنس کے دوران ٹوئیٹر اسپیسز پر ایک گفتگو کا اہتمام کیا۔ یہاں اس گفتگو کے اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں جن کو واضح  کرنے کے لیے ترمیم کی گئی ہے۔

سی او پی 27 کی پا کستان کے لیے کیا اہمیت ہے؟

ماؤنٹین اینڈ گلیشیئر پروٹیکشن آرگنائزیشن اور سول سوسائٹی کولیشن فار کلائمیٹ چینج کی چیف ایگزیکٹو عائشہ خان: سی او پی 27 نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان کے ضرر اور نقصان کا معاملہ، جس کے اثرات بڑے پیمانے پر محسوس کیے گئے، صرف پاکستان تک محدود نہیں  رہے گا۔ کانفرنس میں موجودہ دوسرے ممالک نے بھی اس بات کی بھرپور تائید کی ہے۔

Afia Salam

عافیہ سلام، ماحولیاتی صحافی اور پاکستان کلائمیٹ چینج کونسل کی رکن

عافیہ سلام، ماحولیاتی صحافی اور پاکستان کلائمیٹ چینج کونسل کی رکن:  گزشتہ چندکوپ میں ضرر اور نقصان کے بارے میں بات کی جا رہی تھی لیکن حقیقتاً اس کو کسی بڑی بحث کے طور پر مرکوز نہیں کیا جا رہا تھا۔ پاکستان نے اپنی موجودہ تباہی کو جو کہ اب بھی جاری ہے بھرپور طریقے سے اجاگر کیا۔ اور یہ بھی خبردار کیا کہ اس قسم کی تباہی ملک کی سرحدوں کے باہر بھی اپنا اثر دکھائے گی۔

چونکہ ضرر اور نقصان اب ایجنڈے کا ایک نکتہ بن چکا ہے لہٰذا امید ہے کہ اس میں  کچھ تیزی آئے گی۔  ہم اسے اگلے چند سالوں میں ایک مناسب مالیاتی طریقہ کار میں مرکزی دھارے میں شامل ہوتے دیکھیں گے۔ اس وقت تک، یہ ممالک، گروہوں، مذاکرات کاروں اور لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس کا بھی وہی انجام نہ ہو جو موافقت فنڈ کا ہوا۔

موافقت فنڈ سے ناامیدی

اقوام متحدہ کے نظام نے 2001 میں ایک موافقت فنڈ قائم کیا تھا تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق خود کو ڈھالنے والے ترقی پذیر ممالک کے لئے مالی امداد  پیدا کی جا سکے، لیکن مالی امداد کے ان وعدوں کو پورا نہیں کیا گیا۔

یہ ایک ایسی گفتگو ہے جس میں ہمیں کمزور نہیں پڑنا چاہیے۔ در حقیقت ہمیں اس مسئلے کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔

خان: موسمیاتی خطرات کے خلاف گلوبل شیلڈ ایک مشترکہ قدم ہے جو موسمیاتی انشورنس اور ڈیزاسٹر فنڈنگ کے لیے کوپ 27 میں G7 اور  V20( موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سب سے زیادہ خطرے میں رہنے والے ممالک کا گروپ) کی طرف سے شروع کیا گیا ہے ۔ پاکستان گلوبل شیلڈ سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ لیکن ان پر عزم نتائج کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں سنجیدہ سیاسی مذاکرات شروع کرنے کی ضرورت ہے۔

اس سال کے سیلاب سے حاصل ہونے والےاسباق

فضلدہ نبیل، لیونگ انڈس انیشی ایٹو کی صوبائی کوآرڈینیٹر اور فطرت پر مبنی حل کی ماہر: 2022 کے سیلاب نے ہمیں دکھایا کہ پانی کی کوئی کمی نہیں تھی لیکن پانی صحیح وقت پر اورصحیح جگہ پر نہیں تھا۔ ہمارے پاس سیلاب سے نمٹنے کے لیے پانی زمین میں جذب کرنے کی صلاحیت نہیں تھی کیونکہ دریائی جنگلات کی تیزی سے کٹائی کی وجہ سے ہمارے جنگلات  تنزلی کا شکار  ہو چکے تھے۔

Fazilda Nabeel

فضلدہ نبیل، لیونگ انڈس انیشیٹو کی صوبائی کوآرڈینیٹر

ہمیں فطرت پر مبنی حل کی طرف واپس جانے کی ضرورت ہے اور اس کی ایک بہت اچھی مثال مینگرووز ہیں’ جو نہ صرف مچھلیوں کے لیے رہائش فراہم کرتے ہیں، بلکہ یہ کمیونٹیز کے لیے طوفانوں سے تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں۔ وہ پانی کو فلٹر کرتے ہیں، خوراک اور لکڑی مہیا کرتے ہیں، یہ سب کچھ وہ کاربن کی بڑی مقدار کو ذخیرہ کرتے ہوئے کرتے ہیں۔ سندھ میں انڈس ڈیلٹا میں موجود مینگرو کے جنگلات کو دنیا میں خشک آب و ہوا والے مینگرووز کا سب سے بڑا رقبہ سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں ان ماحولیاتی نظاموں کی حفاظت اور پرورش کرنی چاہیے۔

پاکستان میں ہمیں اسموگ، شہر کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت ، ہوا کا بگڑتا ہوا  معیار، آلودگی اور شہری سیلاب کا سامنا ہے۔ شہری جنگلات ان میں سے ہر ایک مسئلے کا مناسب حل بن سکتے ہیں۔ کراچی میں کلفٹن اربن فاریسٹ، لاہور میں میاواکی فاریسٹ اور درخت لگانے کی مہم جیسے اقدامات کے امید افزا نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک جیسے کہ چین نے اس سے بھی آگے بڑھ کر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو برداشت کرنے کے لیے ’سپنج سٹیز‘ بنائے ہیں۔ مثال کے طور پر، ہاربن شہر میں سڑکیں مسام دار اسفالٹ سے بنائی گئی ہیں تاکہ وہ بارش کا پانی جذب کر سکیں۔

Aisha Khan

ماؤنٹین اینڈ گلیشیئر پروٹیکشن آرگنائزیشن اور سول سوسائٹی کولیشن فار کلائمیٹ چینج کی چیف ایگزیکٹو عائشہ خان

خان: ہم نے بہت سے سبق سیکھے ہیں۔ ہم نے سیکھا ہے کہ ہم انتہائی غیر یقینی دور میں جی رہے ہیں اور مستقبل انتہائی غیر متوقع ہے۔ ہم نے سیکھا ہے کہ ہمیں اپنے مقامی مسائل کو حل کرنے کے لیے مکمل طور پر بیرونی مالیات پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں مستقبل کی حکمت عملیوں کی تشکیل نو کے لیے اپنی ماضی کی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی مقامی زبانوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے شعور بیدار کرنے کے لیے مواصلات کی حکمت عملیوں کی ضرورت ہے۔

سلام: پاکستان میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے حوالے سے جو اہم ابتدائی اقدامات کیے جانے چاہیے تھے وہ ابھی تک زیر التواء ہیں۔ پاکستان کے محکمہ موسمیات نے خبردار کیا تھا کہ اس سال مون سون بارشوں سے زیادہ ہوگی، لیکن کوئی بھی اندازہ نہیں لگا سکا کہ اس سطح کی بارش اور تباہی ہو گی۔

دوسرے ممالک میں مسلح افواج کو یہ مینڈیٹ حاصل ہے کہ وہ اس طرح کی آفات میں دوسرے اداروں کی مدد کرنے میں پہل کریں۔ جیسا کہ امریکہ میں جہاں کترینہ سمندری طوفان کے دوران نیشنل گارڈ کو بلایا گیا تھا۔ پاکستان میں، ہمارے پاس قومی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ہے، لیکن ایک موثر ضلعی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نہیں ہے۔

آفات کے جواب میں پہل کرنے والوں کو اپنے علاقے کے بارے میں تمام معلومات ہونی چاہئیں اور ان کے پاس آفات سے نمٹنے کے لیے وسائل ہونے چاہئیں۔ اگر کوئی آفت کسی خاص علاقے میں آتی ہے، تو وہ نکاسی آب کے نظام کو سنبھالنے اور لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔

2022 کے سیلاب نے ہمیں دکھایا کہ پانی کی کوئی کمی نہیں تھی لیکن پانی صحیح وقت پراور صحیح جگہ پر نہیں تھا

فضلدہ نبیل، لیونگ انڈس انیشیٹو کی صوبائی کوآرڈینیٹر

پاکستان کو ایک بار پھر نچلی سطح سے مقامی طرز حکمرانی کی تنظیم نو کرنی ہوگی، محفوظ پناہ گاہیں بنانا ہوں گی، اور تباہی اور خطرات کا نقشہ بنانا ہوگا۔ ہمیں بنگلہ دیش کی طرح ایک موثر انتباہی نظام تیار کرنے کی ضرورت ہے جس سے لوگوں کو تیزی سے انخلاء میں مدد ملے۔

‘ہمارے دریاؤں کی حفاظت ہونی چاہیے’

نبیل: ایک ملک کے طور پر ہم سندھ پر انحصار کر تے ہیں۔ ہماری معیشت، ہماری ماحولیات اور ہماری آبادی اسی سے قائم ہے۔ پھر بھی ان سب کو خطرہ ہے کیونکہ سندھ بھی دنیا کے سب سے زیادہ کمزور قدرتی ماحولیاتی نظاموں میں سے ایک ہے۔

Fishers pass along the dry side of the Indus River in Hyderabad, southern Pakistan, in September 2018

RECOMMENDEDماہرین نے پاکستان میں دریائے سندھ کی بحالی کے لئے اقدام کا خیر مقدم کیا ہے

لیونگ انڈس انیشی ایٹو کو آنے میں تقریباً ایک سال لگا، جس میں ثالثی کے 25 نکات کی فہرست ہے جن میں سے زیادہ تر فطرت پر مبنی ہیں۔ لیونگ انڈس انیشی ایٹو ایک بحالی کی حکمت عملی ہے جو کہتی ہے کہ ہمارے دریاؤں کی حفاظت ہونی چاہیے اور ہمیں اس کے گردونواح میں تعمیرات کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ انڈس پروٹیکشن ایکٹ تجویز کیا گیا ہے، جو دریا کو قانونی شخصیت کے حقوق دیتا ہے تاکہ ہم آنے والی نسلوں کے لیے اس اہم وسائل کو برقرار رکھ سکیں۔

مالیات میں اب کھربوں کے ضرورت ہے

خان: سیلاب پاکستان کے لیے ایک بہت بھاری نقصان ہے۔ عالمی بینک کا تخمینہ ہے کہ بحالی کے لیے چالیس ارب امریکی ڈالر کی ضرورت ہے۔ پاکستان جیسے ملک کے لیے، جو پہلے ہی قرضوں کی تنظیم نو کے لیے بات چیت کر رہا ہے، اس قسم کی رقم کو بحالی میں لگانا ناممکن ہے۔

اس سال کے سیلاب نے لاکھوں نوجوانوں کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیا ہے کیونکہ ان سیلابوں کے نقصانات اگلی نسلوں تک منتقل ہونگے۔ ہمیں مالی امداد کی مد میں ابھی کھربوں کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے ان نقصانات کے مقابلے میں جو اب تک ہم نے اٹھائے ہیں اور مستقبل میں بھی ہمیں جن سے واسطہ پڑے گا۔

نبیل: گرین کلائمیٹ فنڈ کے تحت کچھ اقدامات کو وسعت دینے کی ضرورت ہے، مثال کے طور پر ایسی زراعت جو موسمیاتی لحاظ سے لچکدار ( ماحولیاتی تبدیلیوں کے برے اثرات سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت) ہو۔

کوئی فوری حل موجود نہیں

خان: ہمیں یہ ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ دریائے سندھ ایک عبوری دریا ہے۔ مشترکہ بیسن مینجمنٹ کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں پالیسیوں کی اجتماعی ملکیت کے لیے ہم آہنگی کے طریقوں اور ذرائع کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے، اور اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس مسئلے پر بھی اسی طرح نظرثانی کرنی ہوگی جس طرح ہم نے اپنی ترقی کی رفتار کی منصوبہ بندی کی ہے۔

سلام: ایسا کوئی جادوئی حل موجود نہیں جو صدیوں پرانی  استحصالی اور غیر منصفانہ ذہنیت کو بدل سکے۔ ترقی یافتہ ممالک کا یہ رویہ ترقی پذیر ممالک کے حوالے سے کچھ نیا نہیں ہے اور یہ مختلف سطحوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ہمیں اس قسم کی استحصالی رکاوٹوں کو توڑنے میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔

ہمارے یہاں قدرتی وسائل بھی بہت منظم طور پر بدانتظامی کا شکار ہیں۔ کوئی فوری حل نہیں ہے، لیکن ہمیں پرانی ساخت کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے اور ان میں دوبارہ تخفیف کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم عملی اقدام، عدالتی کاروائی، تعلیم اور آگاہی کے ساتھ اس مسئلے سے نمٹ سکتے ہیں۔

مترجم: عشرت انصاری

فرح ناز زاہدی

فرح ناز زاہدی معظم دی تھرڈ پول کی پاکستان کی ایڈیٹر ہیں۔ اس سے پہلے وہ ایکسپریس ٹریبیون میں فیچرز ڈیسک کی سربراہ کے طور پر کام کر چکی ہیں۔ ایک صحافی کے طور پر، فرح ناز کی توجہ کا مرکز انسان پر مبنی فیچر کہانیاں رہی ہیں۔ انہوں نے ماحولیاتی مسائل جیسے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، بلیو کاربن، اور جنوبی ایشیا میں پانی سے متعلق اقدامات پر رپورٹس کی ایڈیٹنگ کی ہے۔

Originally published here in Urdu.

Dengue surges in waterlogged Pakistan in wake of floods

Doctors say they are ‘overwhelmed’ by dengue cases in Pakistan’s southern province of Sindh as stagnant water provides a breeding ground for mosquitoes

Zofeen Ebrahim, Farahnaz Zahidi

September 23, 2022

“Iwouldn’t wish dengue on my enemies,” said Kiran Akif. News of a dengue outbreak earlier this month brought back memories of her illness from the potentially fatal, mosquito-borne disease in October last year. The 43-year-old administrator of a private school in Lahore, spoke with concern as she thought of the devastation dengue could wreak in parts of Pakistan that are still inundated with floodwater.  

“The fact that thousands upon thousands of displaced people in our country are sleeping under the open sky, near huge swathes of stagnant water, is frightening,” Akif said.  

The worst floods over a decade have displaced more than 33 million people in Pakistan since mid-June. Over 1,500 people have been killed and more than 12,800 injured, according to the National Disaster Management Authority.

The southern provinces of Sindh and Balochistan were the worst affected by flooding. Both experienced the wettest August on record, receiving seven and eight times their usual monthly rainfall, respectively; a study released last week said that climate change could have increased the most intense rainfall by 50%.

Flooded land surrounds railway tracks

Standing water surrounds a railway line in Sindh, one of the worst-affected provinces by this year’s floods, on 6 September 2022 (Image: Akhtar Soomro / Alamy)

The deluge left behind large areas of standing water: in August, 37% of cropland in Sindh was inundated, according to the United Nations’ Food and Agriculture Organization. In Khyber Pakhtunkhwa, 16% of cropland was affected; 15% in Balochistan; and 9% in Punjab.

This standing floodwater provides a large area for mosquitoes to breed, leading to the spread of diseases like malaria and dengue. 

Naseem Salahuddin, an infectious diseases specialist working at The Indus Hospital, a charitable hospital in Sindh’s capital, Karachi, said she was “overwhelmed” by the “sheer number of patients” coming to the hospital with dengue. “My colleagues at government facilities and even private ones are referring patients out as they don’t have enough beds,” she said. “Dengue seems to have replaced Covid-19.” 

Symptoms rife, but tests and treatment in short supply

In most people, the dengue virus causes an acute flu-like illness, but it can develop into severe dengue with potentially lethal complications.

Salahuddin said she was especially worried about the over 650,000 pregnant women in flood-affected areas across Pakistan. About 73,000 of them are due to give birth in September, according to the United Nations Population Fund. “It’s going to be a losing battle,” she said. “Both mother and child may die if they remain undiagnosed [for dengue or malaria] and, therefore, untreated,” said Salahuddin, explaining that the diseases can cause women to miscarry or give birth prematurely. 

Humaira Bachal, founder of Roshan Pakistan Academy, a charity that provides education and healthcare, has been providing frontline relief since the floods began. She said she and her team had “confirmed dengue cases” after testing displaced people in a camp on the outskirts of Karachi.

Dengue seems to have replaced Covid-19

Naseem Salahuddin, infectious diseases specialist

But, she added, in rural areas, especially in Sindh, children have skin infections so bad that the skin is “peeling off” on their heads and feet, and “gastroenteritis is causing deaths”. The scale of these multiple healthcare crises means health workers have neither the time nor the means to check people for dengue.

“We just give them basic treatment to save their lives,” said Bachal.

Fever is common among those affected by the floods, Bachal said, but there is no way to confirm if people have dengue. The organisations Bachal has come across have not had dengue test kits.  

In early September, Zunera Zulfiqar, a paediatrician at the Sindh Institute of Urology and Transplantation (SIUT) was working at SIUT’s medical camp for flood victims in the coastal district of Lasbela, Balochistan (near Karachi). While she said she did see dengue test kits being used, “There were too many patients with clear symptoms of dengue, also called ‘breakbone fever’, as it presents as typical severe body ache, headaches, fever and vomiting. Symptoms of malaria are not exactly the same.”

Now, the paediatrician is back working on the wards of SIUT, which she said are inundated with dengue patients.

75%

Proportion of patients in one Karachi hospital who may have dengue, according to one doctor’s estimate

“Of every 20 of our admitted patients, approximately six to eight are testing positive for dengue; we are predominantly a nephrology-related hospital so these are patients whose kidneys have been affected by dengue,” said Zulfiqar, adding that at Civil Hospital Karachi the numbers might be as high as 15 out of every 20 patients.

Dengue cases are also on the rise in Khyber Pakhtunkhwa, a government flood report released on 17 September revealed. The Third Pole asked officials about the situation in Balochistan but had not heard back at the time of publication. 

Authorities unprepared for dengue outbreak

Although dengue is common across Pakistan after the monsoon rains, health experts said the Pakistani government seems to be taken by surprise every year. 

“They are never prepared and turn to fire-fighting when things get out of control,” said Qaisar Sajjad, secretary-general of the Pakistan Medical Association.   

But Muhammad Juman Bahoto, director-general of Health Services Sindh, described stories around the dengue outbreak as “exaggeration”.

“Dengue was mostly being reported from Karachi, some from Hyderabad and a handful from Sukkur,” said Bahoto, adding that the provincial disease surveillance response unit was vigilant and only cases of malaria rather than dengue were being reported among displaced people.  

Bahoto stated that the mosquito species that spread dengue breed in stagnant water that typically accumulates in pots or abandoned tyres, not in large bodies of floodwater.

Dengue has no treatment, except symptomatic treatment

Zunera Zulfiqar, paediatrician at Sindh Institute of Urology and Transplantation

Zulfiqar agreed that the number of reported malaria cases is high but pointed out that there are at least antimalarial medicines. “Dengue has no treatment as such, except symptomatic treatment like hydration, fever control and helping patients survive if [blood] platelets drop or organs are affected.”

Bachal, the frontline health worker, described the severity of the situation in Sindh: “If you put up a mosquito net at night in any flood-affected area, by morning you will see the net covered with mosquitoes.” Due to a scarcity of nets, she said, many people use them to protect their livestock that survived the floods and instead cover themselves with cloth.

Children sleep outside under a mosquito net

Children sleep under a mosquito net in Jamshoro district, Sindh province, on 8 September 2022 (Image: Alamy)

Abdul Ghafoor Shoro, general secretary of the PMA’s Karachi division, said the PMA’s teams found people sleeping in the open in flood-affected areas, without mosquito nets. “The government has received thousands of them [nets] in aid; where are they?” 

In the absence of testing kits, Bahoto of Health Services Sindh insisted that healthcare workers “can make a fairly good diagnosis based on the history from patients” and that most often people are not suffering from dengue. Last week, the World Health Organization handed over 42,000 and 13,500 rapid diagnostic kits for dengue and malaria respectively. Now, Bahoto assured The Third Pole, the testing can be done accurately. 

Shoro remained unconvinced, and said he saw “little seriousness” in the handling of the disease. “It [the government] uses fancy words but there is little action on ground.”

As of 21 September, 27 deaths due to dengue in Sindh have been officially reported. Independent health experts told newspaper Dawn that the real numbers are likely much higher, given the lack of testing in flood-affected areas.

‘Break the cycle’

More than a thousand kilometres to the north of Karachi in Islamabad, two species of dengue-spreading mosquitoes – Aedes aegypti and Aedes albopictus – have long been found in abundance, said Ijaz Ali, a virologist at the bioscience department at Comsats University in Islamabad. But a third, Aedes vitatus, was reported there “for the first time this year, which has not been reported from any part of Pakistan,” he said.

The impact of climate change in Pakistan is leading to an “increase in temperature and humidity in summer and decrease in harsher winter days” said Erum Khan, chair of the Department of Pathology and Laboratory Medicine at Karachi’s Aga Khan University Hospital. These are conditions in which vectors of disease, such as mosquitoes, thrive.

Mosquito hatching

Aedes vitatus mosquito found hatching in Islamabad by Comsats University researchers. This year is the first time this dengue-spreading species has been reported in the city. (Image: Ijaz Ali)

Mosquito larvae in a water-filled bottle in a tree

Aedes albopictus mosquitoes found breeding in Islamabad, at a site monitored by Comsats University researchers. This species spreads dengue infection and thrives in tree trunks and shady places. (Image: Ijaz Ali)

Ali said to stop the outbreak authorities need to “break the cycle at the early stage by regularly doing larvicidal activity over a couple of days”. 

With such a huge area of standing water available for mosquitoes to breed this year, the quickest option is aerial spraying, as has been done in response to locust swarms in recent years, Shoro suggested.   

“Or infest the lakes with larvae-eating fish, as is done in countries like Malaysia and Singapore,” said Khan.

Zulfiqar warned that this year’s outbreak could be lethal. Aside from immediate spraying, she said, “the government needs to start awareness campaigns and regulate prices of and ensure availability of mosquito nets, mosquito repellents and life-saving medicines”.

Zofeen Ebrahim

Zofeen was previously Pakistan editor at The Third Pole. She is an independent journalist based in Karachi and writer at the Thomson Reuters Foundation, Dawn and the Guardian. She also contributes regularly to the Inter Press Service.

Farahnaz Zahidi

Farahnaz Zahidi Moazzam is the Pakistan Editor at The Third Pole. Prior to this, she has worked as Head of the Features Desk at The Express Tribune. As a journalist, Farahnaz’s focus has been human-centric feature stories. She has edited reports on environmental issues like solid waste management, blue carbon, and water initiatives in South Asia.

Originally published here.

سیلاب کے بعد پاکستان کےزیر آب علاقوں میں ڈینگی  تیزی سے پھیل رہا ہے

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے جنوبی صوبے سندھ میں ڈینگی کے کیسز سے ‘پریشان ‘ ہیں کیونکہ ٹھہرا ہوا پانی مچھروں کی افزائش گاہ کا کام دے رہا ہے۔

ذوفین ابراہیم , فرح ناز زاہدی

ستمبر 23, 2022

کرن عاکف کہتی ہیں، ” میں اپنے دشمنوں کے لئے بھی کبھی ڈینگی کی خواہش نہ کروں”۔ اس ماہ کے شروع میں ڈینگی پھیلنے کی خبر نے ان کے ذہن میں گزشتہ  سال اکتوبر میں مچھروں سے پھیلنے والی ممکنہ مہلک بیماری سے انکی علالت کی یاد تازہ کردی۔ لاہور کے ایک پرائیویٹ سکول کی 43 سالہ ایڈمنسٹریٹر نے تشویش کا اظہار کیا کیونکہ ان کے خیال میں ڈینگی پاکستان کے ان حصوں میں تباہی مچا سکتا ہے جو اب بھی سیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ 

عاکف نے کہا کہ “یہ ایک خوفناک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں ہزاروں لاکھوں بے گھر لوگ کھلے آسمان کے نیچے، ٹھہرے ہوئے پانی کے بڑے تالابوں کے قریب سو رہے ہیں۔” 

ایک دہائی کے دوران آنے والے بدترین سیلاب نے پاکستان میں جون کے وسط سے اب تک 33 ملین سے زائد افراد کو بے گھر کر دیا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق، 1500 سے زیادہ افراد ہلاک اور 12,800 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔

جنوبی صوبے سندھ اور بلوچستان سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ دونوں نے ریکارڈ کے لحاظ سے  اگست میں بالترتیب اپنی معمول کی ماہانہ بارش سے سات اور آٹھ گنا زیادہ بارش دیکھی۔ گزشتہ ہفتے جاری ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید ترین بارشوں میں 50 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔

Flooded land surrounds railway tracks

اس سال سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبوں میں سے سندھ میں  6  ستمبر 2022 کو ایک ریلوے لائن کے اطراف پانی کھڑا ہے
 (تصویر بشکریہ  اختر سومرو)
الامی

سیلاب اپنے پیچھے کھڑے پانی کے بڑے رقبے چھوڑ گیا ہے: اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے مطابق اگست میں سندھ میں 37 فیصد فصل زیرآب آگئی۔ خیبرپختونخوا میں 16فیصد فصلیں متاثر ہوئیں۔ بلوچستان میں 15% اور پنجاب میں 9 فیصد۔ 

یہ کھڑا سیلابی پانی مچھروں کی افزائش کے لئے ایک بڑا علاقہ فراہم کرتا ہے جس سے ملیریا اور ڈینگی جیسی بیماریاں پھیلتی ہیں۔

سندھ کے دارالحکومت کراچی کے ایک خیراتی اسپتال، دی انڈس اسپتال میں کام کرنے والی ایک متعدی امراض کی  ماہر نسیم صلاح الدین نے کہا کہ وہ ڈینگی کے ساتھ اسپتال میں آنے والے “مریضوں کی بڑی تعداد” سے “پریشان” ہیں۔ انہوں نے کہا ، “سرکاری اور یہاں تک کہ نجی ہسپتالوں میں میرے ساتھی مریضوں کو باہر بھیج رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس کافی بستر نہیں ہیں۔” “ایسا لگتا ہے کہ ڈینگی نے کوویڈ 19 کی جگہ لے لی ہے۔”

علامات واضح ہیں لیکن ٹیسٹ اور علاج کی فراہمی کم ہے

زیادہ تر لوگوں میں، ڈینگی وائرس ایک شدید فلو جیسی بیماری کا سبب بنتا ہے، لیکن یہ ممکنہ مہلک پیچیدگیوں کے ساتھ شدید ڈینگی میں تبدیل ہو سکتا ہے۔

صلاح الدین نے کہا کہ وہ خاص طور پر پاکستان بھر میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 650,000 سے زیادہ حاملہ خواتین کے بارے میں فکر مند ہیں۔ یونائیٹڈ نیشنز  پاپولیشن فنڈ کے مطابق، ان میں سے تقریباً 73,000 ستمبر میں جنم دیں گی۔ انہوں نے کہا،”یہ ایک ہاری ہوئی جنگ ہوگی”۔ صلاح الدین نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ “ماں اور بچہ دونوں کی موت ہو سکتی ہے اگر انکی ڈینگی یا ملیریا کی تشخیص نہ ہو  اور اس وجہ سے، انکا علاج نہ کیا جائے،” صلاح الدین نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیماریاں خواتین کے اسقاط حمل یا قبل از وقت پیدائش کا سبب بن سکتی ہیں۔

تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والے فلاحی ادارے روشن پاکستان اکیڈمی کی بانی حمیرا بچل سیلاب شروع ہونے کے بعد سے فرنٹ لائن ریلیف فراہم کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ  وہ اور ان کی ٹیم نے کراچی کے مضافات میں ایک کیمپ میں بے گھر افراد کے ٹیسٹ کئے  اور وہاں “ڈینگی کے کیسز کی تصدیق ”  ہوئی ہے۔ 

لگتا ہے ڈینگی نے کووِیڈ 19 کی جگہ لے لی ہے  

کراچی کے ایک ہسپتال کی ایک ڈاکٹر نسیم صلاح الدین 

لیکن، انہوں نے مزید کہا، دیہی علاقوں میں، خاص طور پر سندھ میں، بچوں کو جلد کے  اتنے خراب انفیکشن ہیں کہ ان کے سروں اور پیروں کی جلد ” اتر رہی ہے” اور “گیسٹرو اینٹرائٹس اموات کا باعث بن رہی ہے”۔ صحت سے متعلق  ان متعدد بحرانوں کا مطلب ہے کہ ہیلتھ ورکرز کے پاس لوگوں میں ڈینگی کی جانچ کرنے کا نہ تو وقت ہے اور نہ ہی ذرائع۔

بچل نے کہا، “ہم ان کی جان بچانے کے لئے انہیں بنیادی علاج فراہم کرتے ہیں۔”

بچل نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ افراد میں بخار عام ہے، لیکن اس بات کی تصدیق کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ آیا لوگوں کو ڈینگی ہے۔ بچل کا جن تنظیموں سے ملنا ہوا ہے ان کے پاس ڈینگی ٹیسٹ کٹس نہیں ہیں۔

In

ستمبر کے اوائل میں، سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) کی ماہر اطفال، زونیرا ذوالفقار، بلوچستان کے ساحلی ضلع لسبیلہ (کراچی کے قریب) میں سیلاب متاثرین کے لئے ایس آئی یو ٹی کے میڈیکل کیمپ میں کام کر رہی تھیں۔  انہوں نے کہا کہ انہوں نے ڈینگی ٹیسٹ کٹس استعمال ہوتے دیکھی ہیں، ” بہت سارے مریض ڈینگی کی واضح علامات والے تھے، جنہیں ‘ہڈی توڑ بخار’ بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ اس میں جسم میں عام شدید درد، سر درد، بخار اور الٹی ہوتی ہے۔

اب یہ ماہر امراض اطفال ایس آئی یو ٹی  کے وارڈز میں واپس کام کر رہی ہیں، جہاں کے بارے میں  ان کا کہنا ہے کہ ڈینگی کے مریضوں کی بھرمار ہے۔

75%

ایک ڈاکٹر کے اندازے کے مطابق، کراچی کے ایک اسپتال میں 75 فیصد ایسے مریضوں کا تناسب ہے جنہیں ڈینگی ہو سکتا ہے۔

ذوالفقار نے کہا، “داخل کردہ مریضوں میں،  ہر 20 میں سے، تقریباً چھ سے آٹھ ڈینگی کے  ٹیسٹ میں  مثبت آۓ  ہیں۔ ہمارا ہسپتال بنیادی طور پر نیفرالوجی سے متعلق ہے لہذا یہ وہ مریض ہیں جن کے گردے ڈینگی سے متاثر ہوئے ہیں”، انہوں نے مزید کہا کہ سول اسپتال کراچی میں تعداد ہر 20 میں سے 15 مریض ہو سکتی ہے۔

خیبرپختونخوا میں بھی ڈینگی کے کیسز بڑھ رہے ہیں، 17 ستمبر کو جاری ہونے والی سیلاب کی حکومتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے۔ دی تھرڈ پول نے حکام سے بلوچستان کی صورتحال کے بارے میں پوچھا لیکن اشاعت کے وقت تک  کوئی جواب  موصول نہیں ہوا۔

حکام ڈینگی کی وباء سے نمٹنے کے لئے تیار نہیں

اگرچہ مون سون کی بارشوں کے بعد پاکستان بھر میں ڈینگی عام  ہوتا ہے، تاہم ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت ہر سال حیرانی کا شکار نظر آتی ہے۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل قیصر سجاد نے کہا کہ “وہ کبھی تیار نہیں ہوتے اور جب حالات قابو سے باہر ہو جاتے ہیں تو اس سے لڑنے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔”

لیکن ہیلتھ سروسز سندھ کے ڈائریکٹر جنرل محمد جمن باہوتو نے ڈینگی کے پھیلنے کی خبروں کو “مبالغہ آرائی” قرار دیا۔

باہوتو نے کہا ، “ڈینگی زیادہ تر کراچی سے رپورٹ ہو رہا ہے، کچھ حیدرآباد سے اور کچھ سکھر سے”، انہوں نے مزید کہا کہ بیماری کی نگرانی کا صوبائی رسپانس یونٹ چوکس تھا اور بے گھر افراد میں ڈینگی کے بجائے صرف ملیریا کے کیسز رپورٹ ہو رہے تھے۔ 

باہوتو نے بتایا کہ مچھروں کی نسل جو ڈینگی پھیلاتی ہے وہ ٹھہرے ہوئے پانی میں افزائش کرتی ہے جو عام طور پر برتنوں یا متروک شدہ  ٹائروں میں جمع ہوتی ہے نہ کہ سیلابی پانی کے بڑے ذخیروں میں۔

ڈینگی کا کوئی علاج نہیں، سوائے علامتی علاج کے

زنیرہ ذوالفقار، سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن میں ماہر اطفال

ذوالفقار نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ملیریا کے رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد زیادہ ہے لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ کم از کم ملیریا کے خلاف ادویات موجود ہیں۔ “ڈینگی کا کوئی علاج نہیں ہے، سوائے علامتی علاج جیسے ہائیڈریشن، بخار پر قابو پانے اور خون میں  پلیٹلیٹس گرنے یا اعضاء متاثر ہونے کی صورت میں مریضوں کو زندہ رہنے میں مدد کرنا۔”

امدادی کارکن بچل نے سندھ میں صورتحال کی سنگینی کو بیان کیا: “اگر آپ کسی سیلاب سے متاثرہ علاقے میں رات کو مچھر دانی لگاتے ہیں تو صبح تک آپ کو مچھروں سے ڈھکا جال نظر آئے گا۔” انہوں نے کہا کہ مچھر دانی کی کمی کی وجہ سے، بہت سے لوگ انہیں اپنے مویشیوں کی حفاظت کے لئے استعمال کرتے ہیں جو سیلاب سے بچ گئے اور اس کے بجائے اپنے آپ کو کپڑے سے ڈھانپ لیتے ہیں۔

Children sleep outside under a mosquito net


صوبہ سندھ کے ضلع جامشورو میں  8 ستمبر 2022 کو  بچے مچھر دانی کےاندر سو رہے ہیں (تصویر بشکریہ الامی )

پی ایم اے کے کراچی ڈویژن کے جنرل سیکریٹری عبدالغفور شورو نے بتایا کہ پی ایم اے کی ٹیموں نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو مچھر دانی کے بغیر کھلے میں سوتے پایا۔ “حکومت نے  ہزاروں کی تعداد میں مچھر دانیاں  امداد میں حاصل کی ہیں۔ وہ کہاں ہیں؟”

ٹیسٹنگ کٹس کی عدم موجودگی میں، ہیلتھ سروسز سندھ کے باہوتو کا اصرار ہے کہ ہیلتھ کیئر ورکرز ” مریضوں کے گزشتہ احوال کی بنیاد پر ان کی کافی اچھی تشخیص کر سکتے ہیں” اور یہ کہ اکثر لوگ ڈینگی کا شکار نہیں ہوتے۔ گزشتہ ہفتے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ڈینگی اور ملیریا کے لئے بالترتیب 42,000 اور 13,500 ریپڈ ٹیسٹ کٹس دیے۔ باہوتو نے  دی تھرڈ پول کو یقین دلایا کہ اب، جانچ درست طریقے سے کی جا سکتی ہے۔

شورو غیر مطمئن ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے بیماری سے نمٹنے میں “کم  سنجیدگی” دیکھی۔ “یہ حکومت  نت نۓ  الفاظ استعمال کرتی ہے لیکن  حقیقت میں کارروائی بہت کم ہے۔”

سرکاری رپورٹس کے مطابق 21 ستمبر تک سندھ میں ڈینگی کی وجہ سے 27 اموات ہوئی ہیں۔ صحت کے آزاد ماہرین نے   ڈان  اخبارکو بتایا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جانچ کی کمی کے پیش نظر حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

‘اس سائیکل کو توڑنے کی ضرورت ہے

اسلام آباد میں کامسیٹس یونیورسٹی کے شعبہ بائیو سائنس کے ماہر وائرولوجسٹ اعجاز علی نے بتایا کہ اسلام آباد میں کراچی کے شمال میں ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ کے فاصلے پر ڈینگی پھیلانے والے مچھروں کی دو اقسام، ایڈیس ایجپٹی اور ایڈیس البوپکٹس  کافی عرصے سے پائی جاتی ہیں۔ لیکن ایک تیسری قسم، ایڈیس ویٹیٹس، یہاں رپورٹ ہوئی “اس سال پہلی بار، جو پاکستان کے کسی بھی اور حصے سے رپورٹ نہیں ہوئی،” انہوں نے کہا۔ 

کراچی کے آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کے شعبہ پیتھالوجی اینڈ لیبارٹری میڈیسن کی سربراہ ارم خان نے کہا کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات “گرمیوں میں درجہ حرارت اور نمی میں اضافہ اور سردیوں کے سخت دنوں میں کمی” کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ ایسے حالات ہیں جن میں بیماری کے ویکٹر، جیسے مچھر، پنپتے ہیں۔

Mosquito hatching

 
کامسیٹس یونیورسٹی کے محققین نے اسلام آباد میں ایڈیس وٹیٹس مچھر کے انڈے پائے۔ اس سال پہلی بار شہر میں ڈینگی پھیلانے والی اس قسم کی اطلاع ملی ہے۔ (تصویر بشکریہ  اعجاز علی)

Mosquito larvae in a water-filled bottle in a tree

کامسیٹس یونیورسٹی کے محققین کے زیر نگرانی اسلام آباد میں ایڈیس البوپکٹس مچھروں کی افزائش پائی گئی۔ یہ نسل ڈینگی انفیکشن پھیلاتی ہے اور درختوں کے تنوں اور سایہ دار جگہوں پر پروان چڑھتی ہے۔ (تصویر بشکریہ  اعجاز علی)

علی نے کہا کہ اس وباء کو روکنے کے لئے حکام کو “ابتدائی مرحلے میں ہی چند دن لاروا کشی کی سرگرمیاں باقاعدگی سے کر کے سائیکل کو توڑنے کی ضرورت ہے”۔

شورو نے مشورہ دیا کہ اس سال مچھروں کی افزائش کے لئے کھڑے پانی کے اتنے بڑے رقبے کے ساتھ، تیز ترین آپشن ہوائی اسپرے کرنا ہے، جیسا کہ حالیہ برسوں میں ٹڈی دل کے جواب میں کیا گیا ہے۔ 

“یا، جھیلوں میں لاروا کھانے والی مچھلیوں ڈال دیں، جیسا کہ ملائیشیا اور سنگاپور جیسے ممالک میں کیا جاتا ہے،” ارم خان نے کہا۔

ذوالفقار نے خبردار کیا کہ اس سال کی وبا مہلک ہوسکتی ہے۔ فوری طور پر سپرے کرنے کے علاوہ، انہوں نے کہا، “حکومت کو آگاہی مہم شروع کرنے اور قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور مچھر دانی، مچھر بھگانے والی ادویات اور زندگی بچانے والی ادویات کی دستیابی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے”۔

مترجم: ناہید اسرار

ذوفین ابراہیم

زوفین اس سے قبل دی تھرڈ پول میں پاکستان ایڈیٹر تھیں ۔ وہ کراچی میں مقیم ایک آزاد صحافی ہیں اور تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن، ڈان اور دی گارڈین میں مصنفہ ہیں۔ وہ انٹر پریس سروس میں بھی باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

فرح ناز زاہدی

فرح ناز زاہدی معظم دی تھرڈ پول کی پاکستان کی ایڈیٹر ہیں۔ اس سے پہلے وہ ایکسپریس ٹریبیون میں فیچرز ڈیسک کی سربراہ کے طور پر کام کر چکی ہیں۔ ایک صحافی کے طور پر، فرح ناز کی توجہ کا مرکز انسان پر مبنی فیچر کہانیاں رہی ہیں۔ انہوں نے ماحولیاتی مسائل جیسے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، بلیو کاربن، اور جنوبی ایشیا میں پانی سے متعلق اقدامات پر رپورٹس کی ایڈیٹنگ کی ہے۔

Originally published here.

Interview: Climate change only one factor in Pakistan flood devastation

As floods continue to cause death and destruction across Pakistan, The Third Pole spoke with one of the country’s foremost experts on climate change, Ali Tauqeer Sheikh

Farahnaz Zahidi

September 1, 2022

The worst floods in living memory in Pakistan have already resulted in more than 1,100 deaths, including more than 350 children. The floods have affected up to 33 million people, and the Flood Response Plan now has the daunting task of providing relief to 5.2 million people. Referred to as a “monster monsoon” by Pakistan’s climate change minister Sherry Rehman, the floods have left more than one-third of the country underwater.

It will be some time before the full cost of the damage is known. But with infrastructure damaged across the country, provisional estimates suggest the losses could total around USD 10 billion.

Image courtesy of Ali Tauqeer Sheikh

As one of the most climate-vulnerable countries in the world, extreme weather events are a challenge Pakistan will be forced to grapple with, despite contributing less than 1% of global greenhouse gas emissions. But could the sheer scale of loss and damage in the 2022 floods have been avoided? What is being done to avoid this happening again in the future?

The Third Pole spoke with Ali Tauqeer Sheikh, one of Pakistan’s leading experts on climate change, development and climate risk management, about the 2022 floods, their causes, the response so far and the way forward.


The Third Pole: Pakistan used to face flooding every few years. But since 2009 floods have happened almost every year. Is the frequency increasing? And why is the devastation rising?

Ali Tauqeer Sheikh: This is a complex question and has many grey areas. Compared with droughts, heatwaves and glacier melts, which can be clearly attributed to climate change, floods are more complex and harder to attribute to climate change.

But the technology and knowledge around attributing events to climate change has improved – scientists can do modelling and estimate how much was actually due to climate change. Research shows that flooding globally will likely increase due to climate change.

Most of the losses incurred during flooding are often actually due to poor governance and a weak economy

Stronger monsoons result in higher precipitation, and the monsoons are getting more severe. So climate change is a factor. We have also had torrential rains in Sindh, run-off floods in Balochistan, urban flooding in cities like Karachi and Hyderabad, flash floods in south Punjab and lower Sindh, and glacial floods in Gilgit-Baltistan. All this shows that due to climate change, the monsoon has changed its traditional passage, and this will have long-term implications for human security in Pakistan.

But we cannot place our finger on just climate change as the main reason for an increase in devastation from floods. While the increase in floods is very strongly linked with climate change, and climate change is a threat that is multiplying for us, most of the losses incurred during flooding are often actually due to poor governance and a weak economy. We are not weaving climate change into our planning. Until we do that, our vulnerability will continue to increase.

A recent report on climate impacts, adaptation and vulnerability by the Intergovernmental Panel on Climate Change shows that climate impacts are globally hitt­i­­n­­­­g much faster than projected by earlier reports. Pakistan should have heeded the warnings.

If one makes a graph showing losses from heavy floods in Pakistan, like those in 1995, 2003, 2007, 2010 and 2022, against population numbers too, it would be evident that the losses from riverine floods increase as the population increases.

If people settle and build houses on river banks, and if the governance is so weak that instead of stopping them it encourages them to settle there, building schools and hospitals and providing electricity connections, it means the state is institutionalising this vulnerability, and the government is exacerbating it with its weak governance.


So are we seeing a vicious cycle of climate change-induced migration, with communities settling where they shouldn’t?

Yes. I wouldn’t like to go and build a house in a vulnerable area near a nullah [drain or small water body]; the underprivileged don’t like it either, but they are forced to live in vulnerable areas. These areas are more vulnerable to floods, mud slides and snow storms. The issue [of flood damage] becomes more complex due to population increase, the areas they are settled in, and the kind of housing they have.

Part of the reason [for the flood damage] is climate change, part of it is poor infrastructure and poverty, and part of it is a combination of the two. When we fail to understand something or we don’t want to work on a certain area, we pin it on climate change [alone].

The real impact of climate change is lower agricultural productivity, and decreased resilience. For example, when drought hits Tharparkar [a district in Sindh province], people go and settle somewhere else to survive. They move to big cities and try to build houses near nullahs to escape droughts. It’s like out of the frying pan into the fire. You left your home to escape poverty but now you are even more vulnerable.

In their own areas, they at least have social capital; in new areas they become marginalised. There is no security net in terms of money and back up.


Why has Karachi been devastated?

Because the infrastructure is inadequate. If this amount of rain hit any well-developed city, nobody would know anything because their infrastructure is large and functioning. Instead, we’re still relying on pipelines for drainage that were laid during British rule [before 1947], for a population of 46,000 people in Karachi. Now the population is 24-26 million, while the official census shows a lesser number.

The result? Losses, broken roads, children dying and diseases spreading.


Rains in Sindh and Balochistan have broken a 62-year record. Why has Balochistan been so badly and unexpectedly hit by these floods?

I recently wrote about this: a rise in sea level has increased coastal flooding, while higher temperatures at sea give clouds greater ability to travel further over land, which includes even those parts of Balochistan where we did not have flooding earlier. The increasing frequency of flooding in Balochistan can be attributed to these westerly weather influences, rather than the traditional eastern monsoon originating from the Bay of Bengal. This change in the weather cycle seems to have added to the frequency and severity of floods in the typically non-monsoon areas of Balochistan.


Does Pakistan have any proper disaster management plans?

The issue is that our planning is top-down, under the assumption that one size fits all. If you have a specific requirement for a particular neighbourhood, policymakers don’t have the knowledge, patience, or resources to tackle it. We don’t have strong institutions in local government, and these were perhaps kept weak for various reasons. Right now, there is a void at the local level.

The government should enforce rules and make cash reimbursement conditional with living in safe zones.

There is not just a lack of cooperation between local, provincial and federal governments; there is competition between them for resources. The federal and provincial governments are not willing to relinquish the powers they have enjoyed. This has been the case in all governments.

If more resources go to the provinces, this can strengthen provincial capacity, as we have seen since the Eighteenth Amendment [which gave more autonomy and resources to provincial governments]. Provinces need to transfer resources to the third tier of government at district and sub-district levels.


What should be the way forward, when we enter the rehabilitation phase?

There is a conflict between the urgent and long term. Those affected by the floods don’t have a roof over their heads and their standing crops have been destroyed, so they do need urgent help, and it is in the interest of the government to provide them that. But people like us want to see long-term resilience.

More often than not, building back better gets forgotten; meanwhile, some other crisis hits which diverts the policymakers’ attention.

A good example of building back better was when after a recent flood in Canada, the government said that it will support and compensate affected people if they don’t build houses in the same coastal areas. It linked cash reimbursement with building back better.

In Pakistan, if someone becomes homeless due to floods, the government says, ‘take 15,000 rupees and rebuild’. But the house will be destroyed next year again due to floods as it’s in the same fragile areas. The government should enforce rules and make cash reimbursement conditional with living in safe zones.

There is a need to create a balance between relief and rehabilitation. But we channel all of our generosity only towards relief.


How important is a strong infrastructure and building better to avoid loss in the future?

We need guidelines that will help mud houses become stronger, and help their roofs withstand climate change instead of collapsing. Whether plazas, or houses in rural areas and shanty towns, you need to have a standard for building them. For infrastructure we need guidelines that respond to the growing need to deal with floods and disasters.

So far, we have not increased our adaptation, and as a result have not reduced our vulnerability to floods and other disasters. At the heart of it, we are a climate-vulnerable country, and we desperately need adaptation strategies to avoid this level of loss and damage.

Farahnaz Zahidi

Farahnaz Zahidi Moazzam is the Pakistan Editor at The Third Pole. Prior to this, she has worked as Head of the Features Desk at The Express Tribune. As a journalist, Farahnaz’s focus has been human-centric feature stories. She has edited reports on environmental issues like solid waste management, blue carbon, and water initiatives in South Asia.

Originally published in English here.


انٹرویو: موسمیاتی تبدیلی پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی صرف ایک وجہ ہے

پاکستان میں سیلاب سے ہلاکتوں اور تباہی کا سلسلہ جاری ہے، دی تھرڈ پول نے اس سلسلے میں ملک کے موسمیاتی تبدیلی کے ممتاز ترین ماہر علی توقیر شیخ سےگفتگو کی

فرح ناز زاہدی

ستمبر 1, 2022

پاکستان میں اب تک کے آنے والے تاریخ کے بدترین سیلاب کے نتیجے میں پہلے ہی 350 سے زائد بچوں سمیت
1,100 سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔ سیلاب سے تین کروڑ تیس لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں، اور باون
لاکھ لوگوں کو سیلاب کی مصیبتوں سے نجات دلانے کا مشکل کام اب فلڈ ریسپانس پلان کے کندھوں پر آ پڑا

ہے۔پاکستان کی موسمیاتی تبدیلی کی وزیر شیری رحمٰن نے برسات کے اس موسم کو “مونسٹر مون سون” کا نام
دیتے ہوئے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے ملک کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ پانی کے اندر ڈوبا ہوا ہے۔

نقصان کا پورا تخمینہ لگانے میں ابھی فی الحال کچھ وقت لگے گا۔ لیکن اس سیلاب کی وجہ سے پورے ملک میں
انفراسٹرکچر (سڑکوں ، پلوں ، اور نکاسی آب کے نظام) کو نقصان پہنچا ہے۔ اور عارضی تخمینوں کے مطابق یہ
نقصانات تقریباً 10 ارب امریکی ڈالر کے قریب ہیں۔

تصویر بشکریہ علی توقیر شیخ

پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں سے ایک ہے جو آب و ہوا سے پیدا ہونے والے خطرات کی زد میں رہتا ہے اور
یہاں کے سخت موسمی حالات ایک چیلنج ہیں جس سے پاکستان کو نمٹنا پڑے گا، باوجود اس کے کہ عالمی گرین
ہاؤس گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ لیکن کیا 2022 کے سیلاب میں بڑے
پیمانے پر جانی و مالی نقصانات سے بچا جا سکتا تھا؟ مستقبل میں دوبارہ ایسا ہونے سے بچنے کے لیے کیا کیا
جا رہا ہے؟

دی تھرڈ پول نے علی توقیر شیخ جو موسمیاتی تبدیلی، ترقی اور موسمیاتی رسک مینجمنٹ پر پاکستان کے ممتاز
ماہرین میں سے ایک ہیں، کے ساتھ 2022 کے سیلاب، ان کی وجوہات، اب تک کے ردعمل اور آ ئندہ کے لیے
لائحہ عمل ترتیب دینے کے حوالے سے گفتگو کی۔

دی تھرڈ پول: پاکستان کو ہر چند سال بعد سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ لیکن 2009 کے بعد سے تقریباً ہر سال
ہی سیلاب آتا رہا ہے۔ کیا سیلابی ریلوں کی تعداد بڑھ رہی ہے؟ اور تباہی کیوں بڑھ رہی ہے؟

علی توقیر شیخ: یہ ایک پیچیدہ سوال ہے۔ خشک سالی، گرمی کی لہروں اور
گلیشیئرز کے پگھلنے کو سیلاب کے مقابلے میں واضح طور پر موسمیاتی تبدیلیوں سے منسوب کیا جا سکتا ہے،
لیکن سیلاب کو موسمیاتی تبدیلیوں سے منسوب کرنا بہت مشکل اور پیچیدہ ہے۔

موسمیاتی تبدیلی سے جڑے واقعات اور انکے اثرات کو سمجھنے کے حوالے سے سائنسی علم اور
ٹیکنالوجی میں کافی بہتری آئی ہے- اب سائنسدان موسموں کی ماڈلنگ (یعنی کمپیوٹر سے جڑے جدید آلات کے
ذریعے اصل موسمیاتی نظام کا خاکہ تیار کرنا اور اس کی بنیاد پر موسموں کی پیش گوئی کرنا) کر سکتے ہیں
اور اندازہ لگا سکتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے اصل میں کتنا نقصان ہوا ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے
کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر سیلاب کا امکان بڑھ جائے گا۔

سیلاب کے دوران ہونے والے زیادہ تر نقصانات دراصل ناقص حکومتی اقدامات اور کمزور معیشت کی وجہ سے
ہوتے ہیں۔

ایک مؤثر اور مضبوط تر مون سون سسٹم کے نتیجے میں زیادہ بارشیں ہوتی ہیں، اور یہ مون سون اب زیادہ شدید
ہوتے جا رہے ہیں۔ لہذا موسمیاتی تبدیلی سیلابوں میں اضافے کا ایک اہم عنصر ہے۔ ہمیں سندھ میں موسلادھار
بارشوں، بلوچستان میں ابل پڑنے والے سیلاب، کراچی اور حیدرآباد جیسے شہروں میں شہری سیلاب، جنوبی
پنجاب اور زیریں سندھ میں اچانک سیلاب، اور گلگت بلتستان میں برفانی سیلابوں سے واسطہ پڑ رہا ہے۔ یہ سب
کچھ ظاہر کرتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مون سون سسٹم نے اپنا روایتی راستہ بدل لیا ہے اور اس
کے پاکستان میں انسانی تحفظ پر طویل مدتی اثرات مرتب ہوں۔

لیکن ہم صرف موسمیاتی تبدیلیوں کو سیلاب سے ہونے والی تباہی میں اضافے کی بنیادی وجہ قرار نہیں دے
سکتے۔ اگرچہ سیلابوں میں اضافہ موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ بہت مضبوطی سے جڑا ہوا ہے، اور موسمیاتی تبدیلی
ایک خطرہ ہے جو ہمارے لیے مسلسل بڑھ رہا ہے، سیلاب کے دوران ہونے والے زیادہ تر نقصانات دراصل
ناقص حکومتی اقدامات اور کمزور معیشت کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ہم موسمیاتی تبدیلی کو اپنی منصوبہ بندی میں
شامل نہیں کر رہے ہیں۔ جب تک ہم ایسا نہیں کریں گے ہمارا ملک اس تبدیلی کے تباہ کن اثرات کی زد میں رہے
گا۔

موسمیاتی تبدیلی پر بین الحکومتی پینل کی جانب سے موسمیاتی اثرات، موافقت اور ضرر پذیری سے متعلق ایک
حالیہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ عالمی سطح پر موسمیاتی اثرات پہلے کی رپورٹوں کے تجزیے سے کہیں زیادہ
تیزی سے رونما ہو رہے ہیں۔ پاکستان کو ان تنبیہات پر دھیان دینا چاہیے تھا۔

اگر 1995، 2003، 2007، 2010 اور 2022 کی طرح پاکستان میں آنے والے شدید سیلابوں سے ہونے والے نقصانات کا گراف بنایا جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ دریائی سیلابوں
سے ہونے والے نقصانات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

اگر لوگ دریا کے کناروں پر مکانات بنا کر رہنا شروع کر دیتے ہیں تو اور اگر حکومتی ادارے اتنے کمزور ہوں
کہ وہ انہیں روکنے کے بجائے نہ صرف انہیں وہاں بسنے کی ترغیب دیں بلکہ ان کے لیے اسکول اور ہسپتال
بنائیں اور بجلی کے کنکشن بھی فراہم کرنا شروع کر دیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ریاست خود موسمیاتی
تبدیلی کے اس خطرے کو ان کی نظام کی جڑوں میں داخل کر رہی ہے اور اپنی کمزور طرز حکمرانی سے اس
غلط طرز عمل کو خود ہی ہوا دے رہی ہے۔

تو کیا ہم آب و ہوا کی تبدیلی کے نتیجے ہونے والی ہجرت کا ایک خطرناک چکر دیکھ رہے ہیں کیونکہ کمیونٹیز
اُن علاقوں میں آباد ہو رہی ہیں جہاں انہیں آباد نہیں ہونا چاہیے؟

جی ہاں. میں نالے کے قریب کسی ایسے علاقے جو موسمیاتی خطرے کی زد میں
ہو میں جاکر گھر بنانا پسند نہیں کروں گا۔ پسماندہ افراد بھی اسے پسند نہیں کرتے لیکن وہ ان ضرر پذیر علاقوں
میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ان علاقوں کو سیلاب، مٹی کے تودوں اور برفانی طوفانوں کا زیادہ خطرہ رہتا ہے۔آبادی
میں اضافہ، جن علاقوں میں وہ آباد ہیں، اور جس قسم کی گھروں میں وہ رہ رہے ہیں یہ تینوں عوامل مل کر
سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے مسئلہ کو مزید پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔

[سیلاب کے نقصان کی] کچھ وجہ موسمیاتی تبدیلی اور کچھ وجہ کمزور انفراسٹرکچر اور غربت ہے اور کچھ
وجوہات ان دونوں کا مجموعہ ہیں ۔ جب ہم کسی چیز کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں یا ہم کسی خاص علاقے پر
کام نہیں کرنا چاہتے تو ہم اسے صرف موسمیاتی تبدیلیوں سے وصف کر دیتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کا اصل اثر زرعی پیداوار میں کمی اور لچک میں کمی ہے۔ مثال کے طور پر، جب تھرپارکر
[صوبہ سندھ کا ایک ضلع] میں خشک سالی آتی ہے تو لوگ زندہ رہنے کے لیے کہیں اور جا کر آباد ہو جاتے ہیں۔
وہ بڑے شہروں میں چلے جاتے ہیں اور خشک سالی سے بچنے کے لیے نالے کے قریب گھر بنانے کی کوشش
کرتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ دو مصیبتوں میں سے برتر مصیبت کا انتخاب کر بیٹھیں۔ آپ نے غربت سے
بچنے کے لیے اپنا گھر چھوڑا لیکن اب موسمیاتی خطروں کی زد میں رہنے کی وجہ سے آپ کی جان جوکھم میں
ہے۔

اپنے علاقوں میں کم از کم انکے پاس سماجی سرمایہ ہوتا ہے جبکہ نئے علاقوں میں وہ پسماندہ ہو جاتے ہیں۔
پیسے اور بیک اپ کے حوالے سے کوئی سیکورٹی نیٹ نہیں ہے۔


کراچی سیلاب سے اتنا بری طرح متاثر کیوں ہوا ہے؟

کراچی کا انفراسٹرکچر ناکافی ہے۔ اگر کسی بھی ترقی یافتہ شہر میں اتنی بارش ہو تو کسی کو کچھ معلوم نہیں
ہوگا کیونکہ ان کا بنیادی انفراسٹرکچر بڑا ہے اور کام کر رہا ہے۔ جبکہ ہم اب بھی نکاسی آب کے لیے برطانوی
دور کی پائپ لائنوں پر انحصار کر رہے ہیں جو کہ 1947 سے پہلے، کراچی کی 46,000 آبادی کے لیے
بچھائی گئی تھیں۔ اب آبادی ڈھائی کروڑ کے لگ بھگ ہے ، جبکہ سرکاری مردم شماری اس سے کم تعداد ظاہر
کرتی ہے۔

نتیجہ یہ ہے کہ نہ صرف نقصانات ہو رہے ہیں اور سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں بلکہ بچے مر رہے ہیں اور بیماریاں
پھیل رہی ہیں۔

سندھ اور بلوچستان میں بارشوں نے ساٹھ سالہ ریکارڈ توڑا ہے۔ بلوچستان کیوں اتنا برا اور غیر متوقع طور پر
سیلاب سے متاثر ہوا ہے؟

میں نے حال ہی میں اس بارے میں لکھا ہے کہ سطح سمندر میں اضافے سے ساحلی سیلاب میں اضافہ ہوا ہے،
جبکہ سمندر میں زیادہ درجہ حرارت بادلوں کو زمین پر مزید دور تک سفر کرنے کی صلاحیت کو بڑھا دیتا ہے،
جس میں بلوچستان کے وہ حصے بھی شامل ہیں جہاں پہلے سیلاب نہیں آیا تھا۔ بلوچستان میں سیلاب بار بار آرہے
ہیں جس کو خلیج بنگال سے شروع ہونے والے روایتی مشرقی مون سون کے بجائے ان مغربی موسمی اثرات سے
منسوب کیا جا سکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ موسمی چکر میں اس تبدیلی نے بلوچستان کے عام طور پر غیر مون
سونی علاقوں میں سیلابی ریلوں کی تعداد اور شدت میں اضافہ کیا ہے۔

کیا پاکستان کے پاس آفات سے نمٹنے کے نظام کا کوئی مناسب منصوبہ ہے؟

مسئلہ یہ ہے کہ ہماری منصوبہ بندی اوپر سے نیچے کی طرف ہے۔ جسکے تحت یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک ہی
حل سب کے لیے موزوں ہے۔ اگر آپ کو کسی علاقے کے لیے کسی خاص چیز کی ضرورت ہے تو پالیسی
سازوں کے پاس اس سے نمٹنے کے لیے علم، صبر یا وسائل نہیں ہیں۔ ہمارے پاس مقامی حکومت میں مضبوط
ادارے نہیں ہیں، اور ان کو شاید مختلف وجوہات کی بنا پر کمزور رکھا گیا تھا۔ اس وقت مقامی سطح پر ایک خلا
ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ قوانین کو نافذ کرے اور نقد رقم کی ادائیگی کو محفوظ علاقوں میں رہنے کے ساتھ
لازمی قرار دے۔

مقامی، صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے درمیان صرف تعاون کی کمی نہیں ہے بلکہ ان کے درمیان وسائل کا
مقابلہ ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے حاصل اختیارات سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں جس سے وہ
استفادہ حاصل کرتی رہی ہیں۔ تمام حکومتوں میں یہی معاملہ رہا ہے۔

اگر مزید وسائل صوبوں کے پاس جاتے ہیں، تو اس سے صوبائی حیثیت کو تقویت اور اس کے دائرہ کار میں
اضافہ ممکن ہے ، جیسا کہ ہم نے اٹھارویں ترمیم کے بعد دیکھا ہے جس نے صوبوں کو زیادہ خودمختاری اور
وسائل دیے ۔ صوبوں کو حکومت کے تیسرے درجے یعنی اضلاع اور ذیلی اضلاع کی سطح پر وسائل منتقل
کرنے کی ضرورت ہے۔


جب ہم بحالی کے مرحلے میں داخل ہوں تو آگے کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟

فوری اور طویل مدتی حل کے درمیان تنازعہ ہے۔ سیلاب سے متاثر ہونے والوں کے سر پر چھت نہیں ہے اور ان
کی کھڑی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں، اس لیے انہیں فوری مدد کی ضرورت ہے، اور یہ حکومت کے مفاد میں ہے کہ
وہ انہیں مدد فراہم کرے۔ لیکن ہم جیسے لوگ طویل مدتی بحالی کی لچک دیکھنا چاہتے ہیں۔

اکثر ایسا ہوتا ہےکہ گھروں کو دوبارہ بہتر طور پر تعمیر کرنا بھلا دیا جاتا ہے اور دریں اثناء کچھ دوسرے بحران
پیدا ہو جاتے ہیں جسکی وجہ سے حکمت عملی بنانے والوں کی توجہ نئے بحرانوں کی طرف مرکوز ہو جاتی ہے۔

گھروں کو دوبارہ بہتر طور پر تعمیر کرنے کی ایک اچھی مثال یہ ہے کہ جب حال ہی میں کینیڈا میں سیلاب آئے
تو حکومت نے کہا وہ متاثرہ لوگوں کی مدد اس وقت کرے گی جب وہ ساحلی علاقوں میں گھر نہیں بنائیں گے۔
حکومت کے اس فیصلے نے نقد رقم کی ادائیگی کو بہتر تعمیر کرنے کے ساتھ منسلک کیا۔

پاکستان میں اگر کوئی سیلاب سے بے گھر ہو جائے تو حکومت کہتی ہے کہ پندرہ ہزار روپے لے کر اپنا گھر
دوبارہ تعمیر کرلو۔ لیکن مکان اگلے سال دوبارہ سیلاب کی وجہ سے تباہ ہو جائے گا کیونکہ وہ انہی نازک علاقوں
میں ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ قوانین کو نافذ کرے اور نقد رقم کی ادائیگی کو محفوظ علاقوں میں رہنے کے
ساتھ مشروط قرار دے۔

امداد اور بحالی کے درمیان توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہم اپنی تمام سخاوت کو صرف امداد کی
طرف لے جاتے ہیں۔


مستقبل میں نقصان سے بچنے کے لیے مضبوط انفراسٹرکچر اور بہتر تعمیر کرنا کتنا ضروری ہے؟

ہمیں تفصیلی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جو مٹی کے گھروں کو مضبوط بنانے میں مدد کریں، اور ان کی
چھتیں موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کر سکیں بجاے اسکے کے وہ گر جائیں۔ چاہے پلازے ہوں، یا دیہی علاقوں میں
گھر یا جھونپڑیاں آپکو ان کی تعمیر کے لیے ایک معیار کی ضرورت ہے۔ انفراسٹرکچر کے لیے ہمیں ایسے رہنما
اصولوں کی ضرورت ہے جو سیلاب اور آفات سے نمٹنے کے لیے ہماری بڑھتی ہوئی ضرورت کو پورا کر
سکیں۔

ہم نے ابھی تک موسمیاتی تبدیلیوں سے موافقت میں اضافہ نہیں کیا ہے، اور اس کے نتیجے میں سیلاب اور دیگر
آفات کی زد میں آنے سے بچنے کے لیے کوئی کام نہیں کیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم ایک آب و ہوا کے
خطرے سےجلد دوچار ہونے والا ملک ہیں، اور ہمیں اس بڑی سطح کے نقصان سے بچنے کے لیے موافقت کی
حکمت عملیوں کی اشد ضرورت ہے۔

مترجم: عشرت انصاری

فرح ناز زاہدی

فرح ناز زاہدی معظم دی تھرڈ پول کی پاکستان کی ایڈیٹر ہیں۔ اس سے پہلے وہ ایکسپریس ٹریبیون میں فیچرز ڈیسک کی سربراہ کے طور پر کام کر چکی ہیں۔ ایک صحافی کے طور پر، فرح ناز کی توجہ کا مرکز انسان پر مبنی فیچر کہانیاں رہی ہیں۔ انہوں نے ماحولیاتی مسائل جیسے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، بلیو کاربن، اور جنوبی ایشیا میں پانی سے متعلق اقدامات پر رپورٹس کی ایڈیٹنگ کی ہے۔

Originally published in Urdu here.

Interview: ‘The narrative around hydro in Pakistan remains superficial’

Mismanagement of water resources is at the root of Pakistan’s crisis, says water expert Umer Karim

Farahnaz Zahidi

June 24, 2022

More than 80% of the population in Pakistan faces ‘severe water scarcity’. Without change, this is projected to increase. With the water crisis looming over the country, Umer Karim, a development sector professional, sat down with The Third Pole.

Umer Karim

Umer Karim is an expert in irrigation and water management

Karim has been working in the field of irrigation and water management for more than 20 years and is a consultant with public and private sector organisations, as well as a regular guest speaker and media commentator.

He discussed dams, Pakistan’s water and energy crisis, and the challenges of managing data and water. The interview has been edited for length and clarity.

Can you explain the debate around dams in Pakistan?

In 2010, all the provinces had a consensus on the Diamer Bhasha dam [a dam being built in northwest Pakistan, which will be one of the highest in the world when finished]. However now the project is taking a lot of flak. It is difficult to understand why they signed the agreement, if it is now believed that we will suffer and dry up as a result.

Some people propose that small dams should be built in provinces. Please invite them to visit Chotiari reservoir, a small dam built on the Nara Canal in Sindh in 1996. No doubt it’s very helpful and caters to the needs of downstream areas of Umerkot and Tharparkar whenever there is a shortage of water. But people living near the banks of this dam are badly affected by waterlogging, salinity and land degradation. Small dams may be valuable in sustaining communities, but they need proper operation and maintenance plus remedial measures for waterlogging and seepage.

Usually, dams are built in areas where issues of waterlogging and salinity are expected to have the least impact. Tarbela dam, for example, recharges the area’s water tables and keeps them fresh.

One of the disadvantages of dams is that most of the water is diverted for agriculture

Umer Karim

Among people interested in the environmental pros and cons of hydropower, there are plenty of discussions, but technical or scientific research or data is not included. The narrative around hydros, therefore, remains superficial.

This year, we did not have water [stored in] dams. Tarbela was emptied for repair work on its tunnels during the dry – winter – period, and Mangla had to provide support for those areas in Pakistan’s upper reaches. We are essentially on a direct natural flow of the river, which remained lower than average due to low temperatures at glaciers, and this created multiple problems especially for lower riparian areas.

Water storage in dams is not only for consistency but also provides a buffer, which means we have a backup for water all year round. Dams serve the same purpose that water tanks do in homes for storage.

Given the current power and electricity crisis in Pakistan, what do you think is a sustainable way to produce energy?

There are three things needed for the progress of this country. Cheap, sustainable energy is the first, followed by low-cost manpower and inexpensive raw material.

Today as a nation we have created a serious economic imbalance and now are experiencing serious economic crises. Pakistan currently has a circular debt of 1.6 trillion Pakistani rupees (USD 7.7 billion) in the oil and gas sectors; it is close to PKR 2.5 trillion (USD 12 billion) for the power sector only. In 2013, the then-federal government cleared the circular debt and brought it to zero, but by 2017 it had again gone up to PKR 480 billion and today it is multiplied by four times. In comparison, the total cost of constructing Diamer Bhasha is around PKR 1.5 trillion. In the entire economic crisis of our country, the main issue is our circular debt.

What is circular debt?

From 1975 [for almost 20 years] we did not build any dams. Further we started [to fall] in love with thermal power generation, importing fuel and coal at an immense environmental cost – more than hydropower.

Asghar Hussain at the site of the Diamer Bhasha project, Image Hassan Abbas

RECOMMENDEDOpinion: Pakistan’s Diamer Bhasha dam is neither green nor cheap

Nor can solar or wind power totally substitute the need, and they have their own environmental costs. Wind turbines are made of fiberglass; by the way, where will we dump them after 20 years, when they reach the end of their lifecycle? There are also additional costs of buying such technology from overseas, and the heavy interest that we incur. Most importantly, if these renewable sources are unable to provide power – due to lack of wind or light – when it is needed, do we again have to instantly restart thermal plants?

Are you saying that no matter how you produce energy, there will be some environmental damage?

Yes.

Do you think hydropower will provide a stable, cheap and local source of energy, and this will help deal with circular debt?

The problem of circular debt started when we opposed affordable hydropower and switched towards thermal generation with expensive fuels… further, this electricity being so expensive, we tried to subsidise it; even then, the actual cost was not recovered and circular debt started rising.

What about the link between irrigation for crops and hydropower dams?

Water and agriculture are tied together; there are specific times when we need water for crops, as with urban and industrial water supplies. Due to dams, the reliability of water flow increases, but my hypothesis is so does its use. In particular, our agriculture consumption has gone up. It is increasing constantly, and we are not measuring the cropped area properly, so nobody knows what is happening. But we do know that the number of sugar mills in the country has continuously increased in the past 30 years.

We must bear in mind that when we gauge the percentage of water used per sector, over 90% is used by the agricultural sector and the rest by urban and industrial users in Pakistan.

Earlier, [there were rules for] cropping intensities, cropping patterns and water allowances. This used to be a blessing for equitable water distribution, specifically when the resource was limited and uncertain like this year. The construction of dams facilitated disorganised expansion and now we are facing the consequences. Our rivers are dried out and wetlands are degraded.

I am convinced that one of the disadvantages of dams is that most of the water is diverted to be used for agricultural purposes.

I will give you an example. The command-designed cultivated area of Punjab according to the Punjab Irrigation Department is 21.71 million acres, but according to a report of the Bureau of Statistics in 2015, the province is cultivating over 26.48 million acres of land and its aquifer is facing serious depletion issues. Sindh and Khyber Pakhtunkhwa have seen the same trend but Balochistan is the end sufferer. Its command area was 2.69 million acres, but through remote sensing it is assessed that it is cultivating only 2.01 million acres. For the whole country, our designed cultivated area is 38.68 million acres; in 2015 we reported 38.43 million acres, but through land cover assessments for that year it is found that we actually cultivated 46.58 million acres.https://datawrapper.dwcdn.net/uvuqC/1/

The missing data – and its management – on how much is cultivated and produced, what are domestic requirements and how much can be exported is the actual problem.

This year we faced more drought than usual, particularly in Cholistan. What is happening there?

Pakistan is now officially a drought-stricken country. Cholistan is a desert area in Punjab. I come from the similar neighbouring district of Tharparkar  in Sindh. Droughts are not new in these areas, but urbanisation and other reasons have made them tougher.

In the past, after the monsoon, people in the desert would plant rain-fed crops, and afterward in dry periods they migrated towards settled areas with their livestock. Their siblings took care of the cattle grazing in irrigated command areas, while the men worked with landlords. The following year, when the monsoon season had started, they’d move back to their original areas with well-fed healthy livestock and earnings. It seems this has changed. These days after new developments and improved accessibility, men leave for work in urban areas while women and children stay back in Thar.

There aren’t any canals or rivers providing water to Cholistan. It remains dry unless there is a downpour. Instead of politicising these issues and provinces competing about the shortage of water, our focus should be on alleviating the problems of the local communities. I have a success story from our area, where Sindh Irrigation Department has done some great work by providing drinking water to desert communities from the Nara Canal, through pipelines and pumping stations. This has revitalised people’s lives. The same kind of intervention can benefit the people of Cholistan and other areas of Tharparkar.

Farahnaz Zahidi

Farahnaz Zahidi Moazzam is the Pakistan Editor at The Third Pole. Prior to this, she has worked as Head of the Features Desk at The Express Tribune. As a journalist, Farahnaz’s focus has been human-centric feature stories. She has edited reports on environmental issues like solid waste management, blue carbon, and water initiatives in South Asia.

Originally published in English here.

انٹرویو: ‘پاکستان میں ہائیڈرو پاور کے حوالے سے بیانیہ سطحی ہے’

آبی ماہر عمر کریم کا کہنا ہے کہ آبی وسائل کی بدانتظامی پاکستان کے بحران کی جڑ ہے

فرح ناز زاہدی

جون 24, 2022

پاکستان کی 80 فیصد سے زائد آبادی کو ’پانی کی شدید قلت‘ کا سامنا ہے۔ اور اگر تبدیلی نہ آئی تو اس میں اضافہ متوقع ہے۔ ملک میں پانی کے بحران کے بیچ، دی تھرڈ پول نے  اس موضوع  پر ترقیاتی شعبے کے پیشہ ور عمر کریم کے ساتھ گفتگو کی۔  

Umer Karim

عمر کریم آبپاشی اور پانی کے انتظام کے ماہر ہیں۔

کریم 20 سال سے زائد عرصے سے آبپاشی اور پانی کے انتظام کے شعبے میں کام کر رہے ہیں اور سرکاری اور نجی شعبے کی تنظیموں کے لئے بطور مشیر خدمات انجام دیتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ وہ  میڈیا پر باقائدگی سے بطور مہمان مقرر اور مبصر بھی آتے ہیں۔

انہوں نے ڈیموں، پاکستان کے پانی اور توانائی کے بحران اور ڈیٹا اور پانی کے انتظام سے متعلق چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا۔ انٹرویو میں طوالت اور وضاحت کے لئے ترمیم کی گئی ہے۔

کیا آپ پاکستان میں ڈیموں کے حوالے سے بحث کی وضاحت کر سکتے ہیں؟

تمام صوبوں نے 2010 میں، دیامر بھاشا ڈیم پر اتفاق رائے کیا تھا (ایک ڈیم جو شمال مغربی پاکستان میں بنایا جا رہا ہے، جو مکمل ہونے پر دنیا کے بلند ترین ڈیموں میں سے ایک ہو گا)۔ تاہم اب اس پراجیکٹ پر کافی تنقید ہو رہی ہے۔ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ انہوں نے معاہدے پر دستخط کیوں کئے، اگر اب یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ اس کا نتیجہ ہم بھگتیں گے اور ہماری زمینیں خشک ہو جائیں گی۔

کچھ لوگ تجویز کرتے ہیں کہ صوبوں میں چھوٹے ڈیم بنائے جائیں۔ براہ کرم انہیں چوٹیاری ریزروائر کا دورہ کرنے کی دعوت دیں، جو کہ سندھ میں نارا کینال پر 1996 میں بنایا گیا ایک چھوٹا ڈیم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بہت مددگار ہے اور جب بھی پانی کی کمی ہوتی ہے عمرکوٹ اور تھرپارکر کے نشیبی علاقوں کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ لیکن اس ڈیم کے قریب رہنے والے لوگ  سیم، کھارا پن اور زمین کی کٹائی سے بری طرح متاثر ہیں۔ چھوٹے ڈیم کمیونٹیز کو برقرار رکھنے میں کارآمد ہو سکتے ہیں، لیکن انہیں مناسب آپریشن اور دیکھ بھال کے علاوہ آبی ذخائر اور رساؤ  کے تدارک کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے۔

عموماً، ڈیم ان علاقوں میں بنائے جاتے ہیں جہاں سیم اور کھارے پن کے مسائل کے کم اثرات ہونے کی توقع کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر تربیلا ڈیم علاقے کے زیر زمین پانی کی سطح کو ری چارج کرتا ہے اور انہیں تازہ رکھتا ہے۔

ڈیموں کا ایک نقصان یہ ہے کہ زیادہ تر پانی زراعت کی جانب موڑ دیا جاتا ہے

عمر کریم 

ہائیڈرو پاور کے ماحولیاتی فوائد اور نقصانات میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں کے درمیان کافی بحثیں ہیں، لیکن اس میں تکنیکی یا سائنسی تحقیق یا ڈیٹا شامل نہیں ہے۔ لہٰذا، ہائیڈروپاور کے حوالے سے بیانیہ سطحی ہے۔ 

اس سال ہمارے پاس ڈیموں میں پانی ذخیرہ نہیں ہے۔ تربیلا ڈیم کو خشک موسم سرما کے دوران اس کی سرنگوں کی مرمت کے لئے خالی کر دیا گیا تھا اور منگلا کو پاکستان کے بالائی علاقوں کے لئے پانی فراہم کرنا تھا۔ بنیادی طور پر ہم دریا کے براہ راست قدرتی بہاؤ پر ہیں، جو گلیشیئرز پر کم درجہ حرارت کی وجہ سے اوسط سے کم رہتا ہے، اور اس نے خاص طور پر دریا کے نچلے علاقوں کے لئے متعدد مسائل پیدا کئے ہیں۔

ڈیموں میں پانی کا ذخیرہ نہ صرف مستقل فراہمی کے لئے ہے بلکہ ایک بفر بھی فراہم کرتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس سارا سال پانی کا بیک اپ موجود ہے۔ ڈیموں کا وہی مصرف ہوتا ہے جو گھروں میں پانی  ذخیرہ کرنے کے لئے ٹینکوں کا ہوتا ہے۔

پاکستان میں توانائی  اور بجلی کے موجودہ بحران کے پیش نظر، آپ کے خیال میں توانائی پیدا کرنے کا ایک پائیدار طریقہ کیا ہے؟

اس ملک کی ترقی کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہے۔ سستی، پائیدار توانائی سب سے پہلے ہے، اس کے بعد کم لاگت افرادی قوت اور سستا خام مال ہے۔

آج ہم بحیثیت قوم ایک سنگین معاشی عدم توازن پیدا کر چکے ہیں اور اب سنگین معاشی بحرانوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ پاکستان پر اس وقت تیل اور گیس کے شعبوں میں 1.6 ٹریلین پاکستانی روپے (7.7 بلین امریکی ڈالر) کا سرکیولر ڈیٹ گردشی قرضہ ہے؛ صرف پاور سیکٹر کے لئے یہ 2.5 ٹریلین پاکستانی روپے  (  12 بلین امریکی ڈالر) کے قریب ہے۔ سال 2013 میں اس وقت کی وفاقی حکومت نے گردشی قرضہ ختم کردیا تھا اور اسے صفر پر لے آئی تھی لیکن 2017 تک یہ دوبارہ 480 ارب روپے تک پہنچ گیا اور آج اس میں چار گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ اس کے مقابلے میں دیامر بھاشا کی تعمیر کی کل لاگت تقریباً 1.5 ٹریلین روپے ہے۔ ملک کے معاشی بحران میں اصل مسئلہ ہمارا گردشی قرضہ ہے۔

سرکیولر ڈیٹ (گردشی قرضہ) کیا ہے؟

سال 1975 سے تقریباً 20 سال تک  ہم نے کوئی ڈیم نہیں بنایا۔ مزید یہ کہ ہم تھرمل پاور جنریشن کے  چکّر میں پڑ گۓ، ایندھن اور کوئلے کو پن بجلی سے زیادہ ماحولیاتی لاگت پر درآمد کرنے لگے۔

Asghar Hussain at the site of the Diamer Bhasha project, Image Hassan Abbas

RECOMMENDEDرائے: پاکستان کا دیامر بھاشا ڈیم نہ توگرین ہے اور نہ ہی کم قیمت

شمسی یا بادی توانائی مکمل طور پر ضرورت کا متبادل نہیں بن سکتیں، اور ان کی اپنی ماحولیاتی لاگت بھی ہے۔ ونڈ ٹربائن، فائبر گلاس سے بنتی ہیں۔ جب وہ  20 سال کے بعد اپنے اختتام کو پہنچیں گی تو ہم انہیں کہاں تلف کریں گے؟ بیرون ملک سے ایسی ٹیکنالوجی خریدنے کے اضافی اخراجات اور بھاری سود بھی ہے جو ہم اٹھاتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ضرورت پڑنے پر،  ہوا یا روشنی کی کمی کی وجہ سےاگر یہ قابل تجدید ذرائع بجلی فراہم کرنے سے قاصر ہوجاتے ہیں  تو کیا ہمیں فوری طور پر تھرمل پلانٹس کو دوبارہ شروع کرنا ہوگا؟ 

کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ چاہے  توانائی جیسے بھی پیدا  کی جاۓ ، کچھ ماحولیاتی نقصان ضرور ہوگا؟

جی ہاں۔

کیا آپ کو لگتا ہے کہ ہائیڈرو پاور توانائی کا ایک مستحکم، سستا اور مقامی ذریعہ فراہم کرے گا اور اس سے سرکیولر ڈیٹ سے نمٹنے میں مدد ملے گی؟

گردشی قرضے یعنی سرکیولر ڈیٹ کا مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب ہم نے سستی پن بجلی کی مخالفت کی اور مہنگے ایندھن سے تھرمل جنریشن کی طرف رخ کیا۔ مزید یہ کہ یہ بجلی اتنی مہنگی ہے اور ہم نے اس پر  سبسڈی دینے کی کوشش کی۔ جس کے باوجود اصل لاگت وصول نہیں ہوئی اور گردشی قرضہ بڑھنے لگا۔

فصلوں کےلئے آبپاشی اور ہائیڈرو پاور ڈیموں کے درمیان تعلق کے بارے میں کیا خیال ہے؟

پانی اور زراعت آپس میں بندھے ہوئے ہیں۔ شہری اور صنعتی پانی کی فراہمی کی طرح، ایسے مخصوص اوقات ہوتے ہیں جب ہمیں فصلوں کےلئے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈیموں کی وجہ سے، پانی کے بہاؤ کی سقاحت بڑھ تو جاتی ہے، لیکن میرا ماننا ہے کہ اس کا استعمال بھی بڑھ جاتا ہے۔ خاص کر ہمارا  زرعی استعمال بڑھ گیا ہے۔ یہ مسلسل بڑھ رہا ہے، اور ہم زرعی رقبے کی صحیح پیمائش نہیں کر رہے ہیں، اس لئے کوئی نہیں جانتا کہ کیا ہو رہا ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ گزشتہ 30 سالوں میں ملک میں شوگر ملوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ 

ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جب ہم فی سیکٹر میں استعمال ہونے والے پانی کی فیصد کا اندازہ لگاتے ہیں تو 90 فیصد سے زیادہ زرعی شعبے اور باقی پاکستان میں شہری اور صنعتی صارف استعمال کرتے ہیں۔https://flo.uri.sh/visualisation/10473028/embed

اس سے پہلے، فی سال فصل لگانے، فصل کے پیٹرن اور پانی کی معینہ مقدار کے لئے اصول تھے۔ یہ پانی کی منصفانہ تقسیم کےلئے ایک نعمت ہوا کرتا تھا، خاص طور پر جب اس سال کی طرح وسائل محدود اور غیر یقینی تھے۔ ڈیموں کی تعمیر نے غیر منظم توسیع میں مدد کی اور اب ہم اس کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ ہمارے دریا سوکھ گئے ہیں اور پانی سے سیراب زمینیں فرسودگی کا شکار ہیں۔ 

مجھے یقین ہے کہ ڈیموں کا ایک نقصان یہ ہے کہ زیادہ تر پانی  زرعی مصرف کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

میں آپکو ایک مثال دیتا ہوں۔پنجاب  اریگیشن ڈیپارٹمنٹ  کے مطابق پنجاب کا کمانڈ ڈیزائن کردہ کاشت شدہ رقبہ 21.71 ملین ایکڑ ہے لیکن 2015 میں  بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی ایک رپورٹ کے مطابق صوبہ 26.48 ملین ایکڑ رقبہ پر کاشت کر رہا ہے اور اس کے آبی ذخائر کو شدید کمی کے مسائل کا سامنا ہے۔ سندھ اور خیبرپختونخوا میں بھی یہی رجحان دیکھا گیا ہے لیکن بلوچستان اس کا سب سے زیادہ شکار ہے۔ اس کا کمانڈ ایریا 2.69 ملین ایکڑ تھا لیکن ریموٹ سینسنگ کے ذریعے اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ صرف 2.01 ملین ایکڑ پر کاشت کر رہا ہے۔ پورے ملک کے لئے، ہمارا ڈیزائن کردہ کاشت شدہ رقبہ 38.68 ملین ایکڑ ہے۔ 2015 میں ہم نے 38.43 ملین ایکڑ اراضی رپورٹ کی تھی، لیکن اس سال کے  لئے زمینی احاطے کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہم نے اصل میں 46.58 ملین ایکڑ پر کاشت کی تھی۔https://datawrapper.dwcdn.net/PS3S9/1/

 کتنی کاشت اور پیداوار ہوتی ہے، ملکی ضروریات کیا ہیں اور کتنی برآمد کی جا سکتی ہیں ان سب پر غیر دستیاب ڈیٹا اور اسکا انتظام، اصل مسئلہ ہے۔

اس سال ہمیں معمول سے زیادہ خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر چولستان میں۔ وہاں کیا ہو رہا ہے؟

پاکستان اب سرکاری طور پر قحط زدہ ملک ہے۔ چولستان، پنجاب کا ایک ریگستانی علاقہ ہے۔ میرا تعلق سندھ کے اسی طرح کے ہمسایہ ضلع تھرپارکر سے ہے۔ ان علاقوں میں خشک سالی کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن شہرکاری اور دیگر وجوہات نے انہیں مزید مشکل بنا دیا ہے۔

ماضی میں، مون سون کے بعد، ریگستان میں لوگ بارش سے اگنے والی فصلیں لگاتے تھے، اور بعد میں خشک ادوار میں وہ اپنے مویشیوں کے ساتھ آباد علاقوں کی طرف ہجرت کرتے تھے۔ ان کے بہن بھائی آبپاشی والے علاقوں میں مویشیوں کے چرنے کی دیکھ بھال کرتے تھے، جبکہ مرد زمینداروں کے ساتھ کام کرتے تھے۔ اگلے سال، جب مون سون کا موسم شروع ہوتا تو وہ صحت مند مویشیوں اور کمائی کے ساتھ اپنے اصل علاقوں میں واپس چلے جاتے۔ ان دنوں نئی پیشرفتوں اور بہتر رسائی کے بعد، مرد شہری علاقوں میں کام کے لئے چلے جاتے ہیں جبکہ خواتین اور بچے تھر میں ہی رہ جاتے ہیں۔

چولستان کو پانی فراہم کرنے والی کوئی نہر یا دریا نہیں ہیں۔ یہ خشک رہتا ہے جب تک کہ بارش نہ ہو۔ ان مسائل پر سیاست کرنے اور پانی کی قلت کے حوالے سے صوبوں میں مقابلہ کرنے کی بجائے ہماری توجہ مقامی کمیونٹیز کے مسائل کے خاتمے پر مرکوز ہونی چاہیے۔ میرے پاس ہمارے علاقے کی ایک کامیاب کہانی ہے، جہاں سندھ اریگیشن ڈیپارٹمنٹ نے نارا کینال سے، پائپ لائنوں اور پمپنگ اسٹیشنوں کے ذریعے صحرائی آبادیوں کو پینے کا پانی فراہم کر کے بہت اچھا کام کیا ہے۔ اس سے لوگوں کی زندگیوں میں جان آگئی ہے۔ اسی قسم کے اقدامات سے چولستان اور تھرپارکر کے دیگر علاقوں کے لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے

فرح ناز زاہدی

فرح ناز زاہدی معظم دی تھرڈ پول کی پاکستان کی ایڈیٹر ہیں۔ اس سے پہلے وہ ایکسپریس ٹریبیون میں فیچرز ڈیسک کی سربراہ کے طور پر کام کر چکی ہیں۔ ایک صحافی کے طور پر، فرح ناز کی توجہ کا مرکز انسان پر مبنی فیچر کہانیاں رہی ہیں۔ انہوں نے ماحولیاتی مسائل جیسے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، بلیو کاربن، اور جنوبی ایشیا میں پانی سے متعلق اقدامات پر رپورٹس کی ایڈیٹنگ کی ہے۔

Originally published in Urdu here.

Roundtable: The future of energy in Pakistan

As the new government gets to work, The Third Pole organised a conversation between policymakers and experts on the future of Pakistan’s energy and environment

Farahnaz Zahidi

April 19, 2022

After weeks of uncertainty, Imran Khan was ousted as Pakistan’s prime minister and Shehbaz Sharif sworn in as the 23rd premier of the country. The big question now is will the policies, initiatives and changes spearheaded by Khan – especially on the future of Pakistan’s energy – be cut short, or will they continue?

Khan’s Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI)-led government was credited with bringing to the fore the issues of climate change, water conservation and the environment. It repeatedly highlighted its Ten Billion Trees Tsunami Programme (TBTTP). At the same time, the government continued projects under the controversial China-Pakistan Economic Corridor (CPEC), many of them far from environmentally friendly.

On 12 April 2022, a day after the new government took over, The Third Pole hosted a panel discussion on what the future may hold for energy in Pakistan. Here are edited excerpts from that conversation.

‘I am very confident that the good work will continue’

Malik Amin Aslam

Malik Amin Aslam, former Pakistani minister for climate change (Image: The Third Pole)

Pakistan is in the eye of the storm as far as climate change is concerned. The direction we set our government in was in line with this situation. We set out some parameters so that in the future Pakistan will not be part of the problem but try to become part of the global solution. One prong was to shift Pakistan towards reliance on clean energy. The second prong was based on making nature an ally in Pakistan’s development paradigm. The third initiative that we put in place is called “Recharge Pakistan” which uses flood waters to recharge our degraded wetlands and the groundwater aquifers, rather than let them be wasted.

All these initiatives are essential for Pakistan, and slowing down, or changing direction, will not only have heavy ecological but also social and economic consequences for Pakistan. I am very confident that the good work will continue.

The main question is the funding for the future of Pakistan’s energy and environment. Our government had global appeal. The United Nations Environment Programme (UNEP) named Pakistan a global ‘Forestry Champion’, and the World Economic Forum (WEF) declared Pakistan a Champion for Nature. We had put forward a very clear climate-compatible vision, and that was attracting funds. The World Bank gave us USD 120 million during the Covid-19 era when we announced our “Green Stimulus Programme” which could help generate jobs for people. We were now in the last leg of that spending. Another example is the World Bank reaching out with the world’s first nature policy-based lending programme; 90% of that work has been done and within the next four months we would have gotten about a billion dollars linked [to] targets set for the vision of the future of Pakistan’s clean energy.

My only concern now relates to coal projects. The previous regime of Pakistan Muslim League-Nawaz (PML-N) pushed imported coal projects that we stalled and announced that we would not do any more of those. Two of those projects of 2,400 megawatts which were almost signed off were cancelled and replaced by hydro projects. China was very receptive and did it immediately because in their own country they have also made that shift. I hope that coal plants are not pushed again. It would be going against not just Pakistan’s own ecological and climate-compatible development but also against the direction that the world is taking.

We changed CPEC from being very coal-centric to shifting it towards hydro development; I hope that direction stays because we want it to be a green CPEC. The direction that we had set was that 50% of it was large hydro. While large hydro does have its own environmental consequences, when you do the cost-benefit analysis compared to coal or imported coal, it comes out the clear winner. So, we had decided that we are going to go the large hydro pathway for a future in which Pakistan maximises zero-carbon energy.

The rest of the 50% was supposed to come from other renewable sources like windsolar and small micro hydro projects. 1,200 megawatts of wind power projects were approved about a year back and they’re all in different stages of development along the southern coastline. As for solar, the net metering process got started and home solar has taken off. I was against the taxation that was put on solar due to the IMF conditionality. I had been promised that that would be rolled back in the next budget.

What is required in Pakistan is a charter of environment signed by all political parties

Malik Amin Aslam, former minister for climate change

The other issue is the capacity to utilise funds in a quick manner and that is where I foresee the problem will be when we go into this new government because – unless funds get utilised with the same momentum and pace – it would send out muted indicators to the global stage.

What is required in Pakistan is a charter of environment signed by all political parties; I think it is doable because there is a consensus in that direction. This will enable environmental policies and climate change policies to transcend election cycles.

‘All governments have pursued a similar future for Pakistan’s energy’

Abid Qaiyum Suleri, Executive Director, Sustainable Development Policy Institute (SDPI)

Abid Qaiyum Suleri, executive director, Sustainable Development Policy Institute (SDPI) (Image: Stephan Röhl / Heinrich Böll Stiftung, CC BY SA)

When it comes to the question of the new government and how it would be tackling the climate change policy – whether it will continue with the existing initiatives or amend them – experience and history say there may be a change in nomenclature or semantics, but the spirit remains the same. For example, for the flagship afforestation programme (TBTTP) of the previous government there may be a new name, but I don’t see afforestation being removed from the new government’s agenda. Similarly, I foresee the pledge to move almost 60% of the future of Pakistan’s energy mix to renewables by the year 2030 will continue, not just because of the government’s love for green energy but also because fossil fuels are becoming expensive, and with the Russia-Ukraine conflict one knows that importing expensive crude would become difficult for any oil-importing government in developing countries. That would facilitate switching to renewables, solar and hydel.

I foresee that the new government will also pursue construction of dams that the previous government initiated. Some of the projects which PML-N initiated in its last years of government were picked up by the PTI government, and now when the Pakistan Democratic Alliance’s (PDM) coalition government is in power, they are likely to follow this path for the future of Pakistan’s energy.

Before Covid-19, much of the social sector was ignored not only in Pakistan but in most developing countries, which were mostly focusing on brick-and-mortar projects. Health, education, environment and climate change were not given due priority. Due to the pandemic, realisation grew in Pakistan and other developing countries that these sectors cannot be ignored anymore. The bad news is that in countries like Pakistan where we have a federal government, environment, forestry and agriculture are provincial subjects, and the capacity of governance is not homogeneous. This is a chronic challenge.

Joint monitoring and sharing of data are extremely important

Abid Qaiyum Suleri, Sustainable Development Policy Institute

South Asian countries – not only Pakistan – are vulnerable to the impacts of climate change due to their location in a hot and humid region with low average precipitation. Monsoons are shrinking, and monsoon-based economies depending on perennial irrigation are suffering. We have opportunities for regional collaboration on issues like glacier melting. Himalayan glaciers are a common resource for countries like Pakistan, India, Nepal and Bhutan. Joint monitoring and sharing of data are extremely important, especially in the context of transboundary floods, and air quality data as well as crop burning data because of smog.

Exchange of best practices concerning disaster management is important too. There is much scope for cooperation in renewable energy especially solar and wind energy and water use efficiency. The inter-governmental organisation South Asia Cooperative Environment Programme (SACEP) which was established by Economic and Social Commission for Asia and the Pacific (ESCAP) has a lot of potential and can perhaps be revived and strengthened.

‘We need to look at things in a regional context’

Afia Salam, Environmental Journalist:

Afia Salam, environmental journalist

Environment is something that cannot be broken into blocks of an electoral cycle or even countries’ borders. We need to look at things in a regional context. We see the threats that as global south we are facing socially as well in the context of climate change. Many of Pakistan’s issues are transboundary. The water issue is transboundary. Smog that we experience, and which India also experiences, in winters is a shared problem which will require shared solutions. Going forward I am hoping that the governments of both countries – maybe in the spirit of this cordiality of wishing the new incumbents well – will look at shared solutions.

As for the new government that has taken over and the future of climate change policies and projects, I do not foresee major shake-ups. There may be slight tweaks which are acceptable as long as it is not the sledgehammer approach which demolishes whatever has been done in the past. I do not think that’s going to happen because we must remember that the National Policy of Climate Change was approved in 2012 before this outgoing government was in power. Basically, our governments have been building up, have been strengthening, and have been tweaking things as different realities are unfolding before us. I don’t foresee a major upending of the trajectory of the future of Pakistan’s energy. We will see a building up of the foundation that was laid out by the earlier governments on which the previous government built. Projects cannot be scrapped just because the government is not there; these are Pakistan’s projects. Irrespective of whoever comes, I don’t think that Pakistan is in a position to actually drop any of those projects.

We hope that the new government will take up the commitments that we were not able to meet, like our commitment to have 10% of our coastal area declared as marine-protected by 2020

Afia Salam, environmental journalist

While we do have the capacity for building hydro in Pakistan, I hope they will not be very big ones, because as an environmentalist who lives in a coastal city, I have seen first-hand the downstream negative impacts of large hydro projects. We hope that the new government will take up the commitments that have not been met, like our commitment to have 10% of our coastal area declared as marine-protected by 2020. We missed that target. Hopefully the new government will accelerate its progress.

About CPEC, the country responsible for CPEC, which is China, has itself stated the aim of building an ecological civilisation because they themselves want to move away from that tag of being the polluters or even exporting polluting technologies. Pakistan should leverage its own aims and demand a green CPEC.

Farahnaz Zahidi

Farahnaz Zahidi Moazzam is the Pakistan Editor at The Third Pole. Prior to this, she has worked as Head of the Features Desk at The Express Tribune. As a journalist, Farahnaz’s focus has been human-centric feature stories. She has edited reports on environmental issues like solid waste management, blue carbon, and water initiatives in South Asia.

پاکستان کی توانائی کا مستقبل: ایک گفتگو

پاکستان کی نئی حکومت کے کام شروع کرتے ہی، دی تھرڈ پول نے پالیسی سازوں اور ماہرین کے درمیان پاکستان کی توانائی اور ماحولیات کے مستقبل پر ایک آن لائن گفتگو کا اہتمام کیا۔

<img src=”https://www.thethirdpole.net/content/uploads/2022/04/Jhimpir-wind-farm-Pakistan_Alamy.jpg&#8221; alt=”

جھمپیر ونڈ فارم، جو 2013 میں مکمل ہوا، اس طویل مدتی تبدیلی کا حصہ ہے جسے یکے بعد دیگرے حکومتوں نے پاکستان کے توانائی کے شعبے میں آگے بڑھایا ہے۔ (تصویر بشکریہ حسن زیدی /الامی ) 

فرح ناز زاہدی

اپریل 19, 2022

ہفتوں کی غیر یقینی صورتحال کے بعد عمران خان کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور شہباز شریف نے ملک کے 23ویں وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔ اب اہم سوال یہ ہے کہ کیا خان کی زیر قیادت جو پالیسیاں، اقدامات اور تبدیلیاں شروع کی گئی تھیں، انہیں جاری رکھا جاۓگا یا انہیں مختصر کردیا جاۓ گا؟ خاص طور پر پاکستان کی توانائی کا مستقبل کیا ہوگا؟ 

موسمیاتی تبدیلی، پانی کے تحفظ اور ماحولیات کے مسائل کو سامنے لانے کا سہرا پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کو جاتا ہے۔ اس نے اپنے ٹین بلین ٹریز سونامی پروگرام  (ٹی بی ٹی ٹی پی) کو کئی بار نمایاں کیا- اسی دوران، حکومت نے متنازعہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) کے تحت منصوبوں کو جاری رکھا، جن میں سے بہت سے منصوبے ماحول دوست نہیں ہیں۔

 اپریل،12 2022 کو، نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے ایک دن بعد، پاکستان میں توانائی کے مستقبل  کے حوالے سے تھرڈ پول نے ایک پینل ڈسکشن کی میزبانی کی۔ یہاں اس گفتگو کے کچھ اقتباسات پیش ہیں


‘”مجھےکامل یقین ہے کہ اچھا کام جاری رہے گا”

Malik Amin Aslam

ملک امین اسلم، سابق پاکستانی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی (تصویر بشکریہ  دی تھرڈ پول)

جہاں تک موسمیاتی تبدیلیوں کا تعلق ہے پاکستان بیچ طوفان کی زد میں ہے۔ ہم نے اپنی حکومت کے لئے جس سمت کا تعین کیا وہ اس صورتحال کے مطابق تھا۔ ہم نے کچھ پیرامیٹرز طے کئے تاکہ مستقبل میں پاکستان مسئلے کا حصہ نہ بنے بلکہ کوشش رہی ہے کہ عالمی حل کا حصہ بنے۔ اسکی ایک شاخ پاکستان کو صاف توانائی پر انحصار کی طرف منتقل کرنا تھا۔  اسکا دوسرا قدم فطرت کو پاکستان کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے اتحادی بنانا تھا۔ ہم نے جو تیسرا قدم کیا ہے اسے “ریچارج پاکستان” کہا جاتا ہے جو سیلابی پانی کو ضائع ہونے کہ بجائے ہماری تباہ شدہ دلدلی زمینوں اور زیرزمین پانی کو دوبارہ چارج کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ”

یہ تمام اقدامات پاکستان کے لئے ضروری ہیں، اور سست روی، یا سمت بدلنے سے پاکستان کےلئے نہ صرف ماحولیاتی بلکہ سماجی اور اقتصادی نتائج بھی مرتب ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اچھا کام جاری رہے گا- 

اہم سوال پاکستان کی توانائی اور ماحولیات کے مستقبل کے لیے فنڈنگ کا ہے۔ ہماری حکومت کے پاس عالمی حمایت تھی۔ اقوام متحدہ کے ماحولیات پروگرام (یو این ای پی) نے پاکستان کو عالمی ‘جنگلات کا چیمپئن’ قرار دیا، اور ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) نے پاکستان کو فطرت کا چیمپئن قرار دیا۔ ہم نے آب و ہوا سے ہم آہنگ ایک بہت ہی واضح وژن پیش کیا تھا، اور یہی فنڈز کے لئے کشش تھی۔ ورلڈ بینک نے ہمیں کوویڈ 19 کے دور میں 120 ملین امریکی ڈالر دیے جب ہم نے اپنے “گرین اسٹیمولس پروگرام” کا اعلان کیا جس سے لوگوں کے لیے ملازمتیں پیدا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ہم اب اس فنڈ کے آخری مرحلے پر تھے۔ ایک اور مثال ورلڈ بینک کا دنیا کا پہلے نیچر پالیسی پر مبنی قرض دینے کا  پروگرام ہے جسکا  90 فیصد کام ہو چکا ہے اور اگلے چار مہینوں کے اندر ہم پاکستان کے صاف توانائی کے مستقبل کے وژن کے مقرر کردہ اہداف کے لئے تقریباً ایک ارب ڈالر حاصل کر چکے ہوں گے۔ 

اب میری واحد تشویش کوئلے کے منصوبوں سے متعلق ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کی پچھلی حکومت نے کوئلے کے درآمدی منصوبوں کو آگے بڑھایا جو ہم نے روک دئے اور اعلان کیا کہ ہم ان پر مزید کام نہیں کریں گے۔  ان منصوبوں میں سے2,400 میگا واٹ کے دو منصوبے جن پر تقریباً دستخط ہو چکے تھے، منسوخ کر دئے گئے اور ان کی جگہ ہائیڈرو پراجیکٹس نے لے لی۔ چین نے اس سے اتفاق کیا اور اسے فوری طور پر منسوخ کردیا کیونکہ ان کے اپنے ملک میں بھی انہوں نے یہ تبدیلی کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ کوئلے کے پلانٹس کو دوبارہ شروع نہیں کرایا جائے گا۔ یہ نہ صرف پاکستان کی اپنی ماحولیاتی اور آب و ہوا سے ہم آہنگ ترقی کے خلاف ہو گا بلکہ اس سمت کے خلاف بھی ہو گا جسکی جانب  دنیا بڑھ رہی ہے۔

پاکستان میں چارٹر آف انوائرمنٹ کی ضرورت ہے جس پر تمام سیاسی جماعتوں کے دستخط ہوں۔

ملک امین اسلم

ہم نے سی پیک کو کوئلے پر مرکوز منصوبے سے بدل کر اسے ہائیڈرو ڈویلپمنٹ کی طرف منتقل کیا۔ مجھے امید ہے کہ ہمارا رخ اسی سمت کی جانب رہے کیوں کہ ہم اسے گرین سی پیک دیکھنا چاہتے ہیں۔ جو سمت ہم نے متعین کی تھی اسکا پچاس فیصد ہائیڈرو پاور پر مشتمل تھا۔ حالاں کہ بڑے ہائیڈرو کے اپنے ماحولیاتی اثرات ہوتے ہیں، لیکن جب آپ کوئلے یا درآمد شدہ کوئلے کا مقابلہ مؤثرلاگت کے تجزیہ کے لحاظ سے کرتے ہیں، تو آخر میں ہائڈرو پاور واضح طور پر بہتر نظر آتا ہے۔لہذا، ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم مستقبل کے لئے بڑے ہائیڈرو منصوبوں کی طرف جائیں گے جس میں پاکستان کاربن صفر توانائی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرے۔

بقیہ 50 فیصد دیگر قابل تجدید ذرائع جیسے ہوا، شمسی اور چھوٹے مائیکرو ہائیڈرو پروجیکٹس سے آنا تھا۔ تقریباً ایک سال قبل 1,200 میگاواٹ کے ونڈ پاور پراجیکٹس کی منظوری دی گئی تھی اور یہ سب جنوبی ساحلی پٹی پر تعمیر کے مختلف مراحل پرہیں۔ جہاں تک سولر کا تعلق ہے، نیٹ میٹرنگ کا عمل شروع ہو گیا ہے اور گھریلو سولر کا آغاز ہوگیا ہے۔ میں اس ٹیکس کے خلاف تھا جو آئی ایم ایف کی شرط کی وجہ سے سولر پر لگایا گیا تھا۔ مجھ سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اگلے بجٹ میں اسے ختم کر دیا جائے گا۔

 دوسرا مسئلہ فنڈز کے فوری  استعمال کرنے کی صلاحیت کا ہے اور یہ وہ جگہ ہے جہاں میں دیکھ رہا ہوں کہ جب ہم اس نئی حکومت میں جائیں گے تو مسئلہ ہو گا، کیونکہ اگر فنڈز کو اسی رفتار اور شدومد کے ساتھ استعمال نہ کیا جائے تو یہ عالمی سطح پر منفی تاثر بھیجے گا۔

 
تمام حکومتوں نے پاکستان کی توانائی کے لئے یکساں مستقبل کی کوشش کی ہے

عابد قیوم سلیری، ایگزیکٹو ڈائریکٹر، سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی)

Abid Qaiyum Suleri, Executive Director, Sustainable Development Policy Institute (SDPI)

عابد قیوم سلیری، ایگزیکٹو ڈائریکٹر، سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) (تصویر بشکریہ اسٹیفن روہل /ہنرک بول اسٹیفٹنگ ) 

اب سوال ہے نئی حکومت کا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی سے کیسے نمٹتی ہے۔ آیا یہ موجودہ اقدامات کو جاری رکھے گی یا ان میں ترمیم کرے گی؟ تجربہ اور تاریخ کہتی ہے کہ نام یا لفظیات میں تبدیلی ہو سکتی ہے لیکن منصوبوں کی اصل روح وہی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر، پچھلی حکومت کے معروف شجرکاری  پروگرام (ٹی بی ٹی ٹی پی) کے لیے کوئی نیا نام ہو سکتا ہے، لیکن مجھے نئی حکومت کے ایجنڈے سے شجرکاری ختم ہوتے دکھائی نہیں دیا۔ اسی طرح، میں دیکھتا ہوں کہ پاکستان کے مکس توانائی  کے مستقبل کا تقریباً 60 فیصد 2030 تک قابل تجدید ذرائع پر منتقل کرنے کا عہد جاری رہے گا۔ یہ صرف اس لئے نہیں حکومت کو گرین  توانائی سے محبت ہے بلکہ اس وجہ سے بھی کہ قدرتی ایندھن مہنگا ہوتا جا رہا ہے، اور روس اور یوکرین کے تنازعے کے تناظر میں ہم جانتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک میں تیل درآمد کرنے والی کسی بھی حکومت کےلئے مہنگا خام تیل درآمد کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس سے قابل تجدید ذرائع، شمسی اور آبی توانائی کی طرف منتقلی میں آسانی ہوگی۔ 

مجھےاندازہ ہے کہ نئی حکومت ڈیموں کی تعمیر کو بھی آگے بڑھائے گی جو پچھلی حکومت نے شروع کی تھی۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنی حکومت کے آخری سالوں میں جو منصوبے شروع کیے تھے ان میں سے کچھ کو پی ٹی آئی حکومت نے اپنایا تھا، اور اب جب پاکستان ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی ایم) کی مخلوط حکومت برسراقتدار ہے تو ممکن ہے کہ وہ پاکستان میں توانائی کے مستقبل کے لیے اس راستے پر چلیں گے۔  

کووڈ 19 سے پہلے، نہ صرف پاکستان میں بلکہ زیادہ تر ترقی پذیر ممالک میں سماجی سیکٹر کو نظر انداز کیا گیا تھا جو زیادہ تراینٹ اور مارٹر منصوبوں پر مرکوز تھے۔ صحت، تعلیم، ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلیوں کو مناسب ترجیح نہیں دی گئی۔ کووڈ 19 کی وجہ سے پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کو یہ احساس ہوا کہ ان شعبوں کو مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بری خبر یہ ہے کہ پاکستان جیسے ممالک میں جہاں وفاقی حکومت ہے، ماحولیات، جنگلات اور زراعت صوبائی معاملات ہیں، جبکہ حکمرانی کی صلاحیت یکساں نہیں ہے۔ یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔

مشترکہ نگرانی اور ڈیٹا کا اشتراک انتہائی اہم ہے۔

عابد قیوم سلیری

صرف پاکستان ہی نہیں دیگر جنوبی ایشیائی ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا شکار ہیں کیونکہ یہ  گرم اور مرطوب خطے میں واقع ہیں جہاں کم اوسط بارش ہے۔ مون سون سکڑ رہا ہے، اور مون سون پر مبنی معیشتیں جو بارہ ماہی آبپاشی پر منحصر ہیں، متاثر ہو رہی ہیں۔ ہمارے پاس گلیشیئر کے پگھلنے جیسے مسائل پر علاقائی تعاون کے مواقع ہیں۔ ہمالیائی گلیشیئرز پاکستان، بھارت، نیپال اور بھوٹان جیسے ممالک کے لیے مشترکہ وسائل ہیں۔ مشترکہ نگرانی اور اعداد و شمار کا تبادلہ انتہائی اہم ہے، خاص طور پر سرحد پار سیلاب کے تناظر میں، اوراسموگ کی وجہ سے ہوا کے معیار کے اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ فصلوں کے جلنے کا ڈیٹا۔

 قدرتی آفات کی روک تھام سے متعلق بہترین طریقوں کا تبادلہ بھی ضروری ہے۔ قابل تجدید توانائی بالخصوص شمسی اور ہوا کی توانائی اور پانی کے استعمال کی کارکردگی میں تعاون کی بہت گنجائش ہے۔ بین حکومتی تنظیم ساؤتھ ایشیا کوآپریٹو انوائرنمنٹ پروگرام (ایس اے سی ای پی) جسے اکنامک اینڈ سوشل کمیشن فار ایشیا اینڈ دی پیسیفک (ای ایس سی اے پی) نے قائم کیا تھا اس میں بہت زیادہ صلاحیت موجود ہے اور شاید اسے بحال اور مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ 

 
“ہمیں چیزوں کو علاقائی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے”

عافیہ سلام، ماحولیاتی صحافی

Afia Salam, Environmental Journalist:

Afia Salam, environmental journalist

ماحول ایک ایسی چیز ہے جسے ایک انتخابی دور یا یہاں تک کہ ممالک کی سرحدوں کے ٹکڑوں میں توڑا نہیں جا سکتا۔ ہم ان خطرات کو دیکھتے ہیں جو عالمی جنوب کی حیثیت سے ہمیں ماحولیاتی تبدیلی کے تناظر میں سماجی طور پر بھی درپیش ہیں۔ پاکستان کے بہت سے مسائل سرحد پار ہیں۔ پانی کا مسئلہ سرحد پار بھی ہے۔ اسموگ جس کا ہم سامنا کرتے ہیں، اور جس کا ہندوستان بھی سردیوں میں سامنا کرتا ہے، ایک مشترکہ مسئلہ ہے جس کے مشترکہ حل کی ضرورت ہوگی۔ آگے بڑھتے ہوۓ نۓ آنے والوں سے خیر خواہی میں، میں یہ امید کرتی ہوں کہ دونوں ممالک مشترکہ حل کے لئے کام کریں گے 

جہاں تک نئی مقتدر حکومت اور موسمیاتی تبدیلی کی پالیسیوں اور منصوبوں کے مستقبل کا تعلق ہے، میں کسی بڑے ہلچل کی توقع نہیں کرتی، اس میں معمولی تبدیلیاں ہو سکتی ہیں جو قابل قبول ہیں اگرچہ کہ ماضی میں جو کچھ بھی کیا گیا ہے اسے یکسر ختم نہ کردیا جاۓ۔ مجھے نہیں لگتا کہ ایسا ہونے والا ہے کیونکہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ موسمیاتی تبدیلی کی قومی پالیسی 2012 میں حالیہ سبکدوش ہونے والی حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے منظور کی گئی تھی۔ بنیادی طور پر، ہماری حکومتیں چیزوں کو بناتی، مضبوط کرتی اور تبدیل کرتی رہی ہیں کیونکہ مختلف حقائق ہمارے سامنے آتے رہے ہیں۔ مجھے پاکستان کی توانائی کے مستقبل کے حوالے سے کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں ہے۔ ہم اس بنیاد کی تعمیر دیکھیں گے جو سابقہ حکومتوں نے رکھی تھی جس پر پچھلی حکومت نے کام کیا۔ منصوبوں کو صرف اس لیے ختم نہیں کیا جا سکتا کہ اب وہ حکومت نہیں رہی ۔ یہ پاکستان کے منصوبے ہیں۔ چاہے کوئی بھی آئے، میں نہیں سمجھتی کہ پاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ وہ ان میں سے کسی بھی پروجیکٹ کو روک سکے۔

ہم امید کرتے ہیں کہ نئی حکومت ان وعدوں کو پورا کرے گی جنہیں ہم پورا نہیں کر سکے، جیسا کہ 2020 تک ہمارے ساحلی علاقے کے 10 فیصد حصے کو سمندری تحفظ کے طور پر مخصوص کرنے کا عزم 

عافیہ سلام

اگرچہ پاکستان میں  ہمارے پاس ہائیڈرو پاور پلانٹ بنانے کی صلاحیت موجود ہے، لیکن مجھے امید ہے کہ وہ بہت بڑے  نہیں ہوں گے، کیونکہ بطور ایک ماہر ماحولیات جو ساحلی شہر میں رہتی ہے، میں نے بڑے ہائیڈرو پراجیکٹس کے سراسر منفی اثرات  دیکھا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ نئی حکومت ان وعدوں کو پورا کرے گی جنہیں ہم پورا نہیں کر سکے، جیسا کہ 2020 تک ہمارے ساحلی علاقے کے 10 فیصد حصے کو سمندری تحفظ کے طور پر مخصوص کرنے کا عزم۔ امید ہے کہ نئی حکومت اسکی پیش رفت کو تیز کرے گی۔

سی پیک کے بارے میں، سی پیک کے ذمہ دار ملک، چین نے خود ایک ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر کا عزم کیا ہے کیونکہ وہ خود آلودگی پھیلانے والی یا یہاں تک کہ آلودگی پھیلانے والی ٹیکنالوجیز کو برآمد کرنے کی اس پہچان سے دور جانا چاہتا ہے

فرح ناز زاہدی

فرح ناز زاہدی معظم دی تھرڈ پول کی پاکستان کی ایڈیٹر ہیں۔ اس سے پہلے وہ ایکسپریس ٹریبیون میں فیچرز ڈیسک کی سربراہ کے طور پر کام کر چکی ہیں۔ ایک صحافی کے طور پر، فرح ناز کی توجہ کا مرکز انسان پر مبنی فیچر کہانیاں رہی ہیں۔ انہوں نے ماحولیاتی مسائل جیسے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، بلیو کاربن، اور جنوبی ایشیا میں پانی سے متعلق اقدامات پر رپورٹس کی ایڈیٹنگ کی ہے۔

English version originally published here.

Urdu version originally published here.

In Chitral, women keep culture alive by doing good capitalism

Small businesses thrive in tourist hotspot SAMAA | Farahnaz Zahidi – Posted: Dec 24, 2021 | Last Updated: 5 days ago

In Chitral, women keep culture alive by doing good capitalism

A view from Villa Ayun.A view from Villa Ayun.

As the day starts for Bibi Rabia in Chitral’s Jughoor village, she calls out to her forty chickens for their morning feed. The brood’s eggs not only provide her family a protein-rich breakfast, but also make it possible for her to earn a living.

“I got her a few chickens to keep her busy. Zinda rehne ke liye insaan ko kuch maqsad to chahiye na,” says her son Shuja, who works in tourism in Chitral. Everyone needs a purpose to stay alive. Sixty-five-year-old Bibi Rabia survived breast cancer but after the chemotherapy, had grown depressed. But what started as a distraction has now become a livelihood.

The ethos of having work runs deep in this region. Shuja’s six sisters are all gainfully employed; one is a health worker, another a teacher, and the others run small handicraft businesses. This is nothing unique; Chitrali women are financially more empowered than those in the other parts of KP.

The assumption is that the more remote or difficult the terrain, the less empowered the women of the region. However, here in the jagged mountains of the Hindukush range a very different story is unfolding.

At a drive of less than an hour from Chitral town is Villa Ayun, a heritage home that has been turned into an eco-retreat. This was the brainchild of Maria Ul Mulk, a development practitioner, who is now managing the marketing and aesthetics of this family-owned mountain resort which she runs with her brother and mother. It is an open house for mountaineers, scholars, dignitaries or foreign tourists passing through Chitral on the Silk Route.

Converting it into an eco-resort was merely a logical progression. It was always a place that people wanted to visit, given the location, the imagination-defying views, and the background of the Ul Mulk family. The pandemic and resultant travel restrictions led to a surge in local tourism and Chitral was high on the list of must-see places. Social media helped draw people to this eco-retreat in particular.

“Our grandfather, Khush Ahmed Ul Mulk, was a renowned environmentalist whose ethos shaped the whole idea behind Villa Ayun—an eco-resort that now runs entirely on renewable energy, grows its own organic produce and where almost everything is farm-to-table,” says Maria. “I conceptualized setting up a retreat that is a blueprint for eco-tourism rather than being a cookie-cutter hotel.”

The family feared the erosion of the physical and cultural environment of Chitral at the hands of mass tourism as has been the fate of other tourist hotspots in Pakistan. “What was originally a fort built by my ancestors in the 1920s is Villa Ayun today,” says Maria. “Earthquakes and passing time caused structural damage to the fort, which was eventually brought down. But elaborate woodwork from the old fort was restored and used in our reconstructed ancestral home.” Thus its charm is the visible and deliberate preservation of heritage as well as an organic experience for the weary urban tourist who laps up the joys offered by organic vegetables and fruit from the nearby orchards, and honey farmed right there.

The Ul Mulk family has divided the work of running the six-room hotel. Maria’s brother Junaid Ul Mulk looks after business development and sales. A pivotal role is played by their mother Parveen who is in charge of operations. “My mother has always been the one who runs the state, managing farming tenancies and the works,” says Maria.

According to Masood Ul Mulk, Maria’s father and CEO of the Sarhad Rural Support Programme, an NGO working on poverty alleviation in North West Pakistan, working conditions for women have come a long way. “Some four decades ago when we needed female staff for SRSP, local women were not willing to do it due to conservative mindsets,” he says.

The NGO worked on women-centric interventions such as drinking water and electricity in previously deprived areas. “We have developed a localized systems of lending for small female entrepreneurs,” says Masood. Women get vocational training in their villages as they do not want to travel too far out. Shuja confirms this trend. “In villages, women have started setting up beauty salons and handicraft centres as well as gift and clothes shops at home. NGOs in the district have helped train them.”

In Masood’s opinion one reason why women are working to earn in Chitral is that the farmers generally have small pieces of land to call their own, so families cannot sustain themselves by relying on agriculture alone, and must find other sources of livelihood.

Shah Puri of Nan Cafe in Booni
Shah Puri of Nan Cafe in Booni

About three hours from Ayun is another establishment that is also run by women: the cosy Nan Café in Booni, Upper Chitral. To arrive here you need to travel back from Villa Ayun to Chitral and then about two hours further north.

“My mother is the lifeline of this eatery,” says Adnan Ali. “In Khowar language which we speak, Nan means mother. That is where we got this name.” His mother Shah Puri peeps in every few minutes from an aperture between the seating area and the kitchen where she and her female helpers prepare tray after tray of fresh steaming hot Shula, one of the most popular dishes in Chitrali cuisine made of rice and beef broth. Shah Puri hails from a small village called Ghoru Lasht, Parkusap. Some thirty years ago, she, her husband, and her four children migrated to Booni in search of a better livelihood.

Shah Puri’s journey begun when her husband was appointed a watchman and janitor for Pamir Public School, and College, and she was employed as a cook in the cafeteria. Their children were given a free education as a benefit of their employment. After 15 years of this job, the enterprising Shah Puri began working towards starting her own business. Her dream was to open a café for tea and snacks, and provide catering for events. With encouragement and support from her family, Shah Puri took the road less travelled, and eventually found donors who helped her open the cafe. Today, Nan Café is a favourite among locals and tourists, and on an average day it has a footfall of more than a hundred people. They also supply home delivery, take-away and catering.

Shah Puri’s husband helps her on his days off, as do her two sons Adnan and Tahir. As Adnan serves a platter of Cheera Shapik—a baked bread filled with thickened milk—he shares his mother’s success story. “Initially the community was surprised to see a woman running a restaurant. But now she has become a role model for local women, and more and more Chitrali women are now becoming empowered like my mother.”

FaceBook
Twitter
WhatsApp

Getting our act together – With Farahnaz Zahidi Moazzam – A podcast

Taking care of your heart, mind, body and soul in the light of Islam, and how a simpler life is a better life. Farahnaz in conversation with Saadia Tariq on the podcast Dhaani

In this podcast we talk about :- Various human dimensions; Balance, moderation; Awareness & implementation; Simplicity. & Healing

https://anchor.fm/dhaani/episodes/Getting-our-act-together—With-Farahnaz-Zahidi-Moazzam—Episode-111-e137hqu?fbclid=IwAR3dj3DOxyAklutniBT9XCGFZEVOU1-JnSXB52K30xzjlujq7pTuScS9NEI#:~:text=https%3A//anchor.fm/dhaani/episodes/Getting-our-act-together—With-Farahnaz-Zahidi-Moazzam—Episode-111-e137hqu/a-a5v1sgl